Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 59
وَ تِلْكَ الْقُرٰۤى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَ جَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا۠   ۧ
وَتِلْكَ : یہ (ان) الْقُرٰٓى : بستیاں اَهْلَكْنٰهُمْ : ہم نے انہیں ہلاک کردیا لَمَّا : جب ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے مقرر کیا لِمَهْلِكِهِمْ : ان کی تباہی کے لیے مَّوْعِدًا : ایک مقررہ وقت
اور یہ بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کردیا جبکہ ان کے لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے ایک وقت مقرر کیا۔ )
وَتِلْکَ الْقُرٰٓی اَھْلَکْنٰـھُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَھْلِکِھِمْ مَّوْعِدًا۔ (الکہف : 59) (اور یہ بستیاں ہیں جنھیں ہم نے ہلاک کردیا جبکہ ان کے لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے ایک وقت مقرر کیا۔ ) گزشتہ آیت پر تاریخی شہادت گزشتہ آیت میں جو کچھ فرمایا گیا ہے یہ آیت کریمہ اس پر دلیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو اس قوم کا امتحان شروع ہوجاتا ہے کہ وہ اس رسول کی دعوت کو قبول کرکے کامیابی اور نجات کا راستہ اختیار کرتی ہے یا اس دعوت کو رد کرکے اپنے لیے تباہی اختیار کرتی ہے۔ رسول اپنی قوم کی اصلاح کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے۔ ہر طریقے سے ان کے خیالات کو بدل کر انھیں اللہ تعالیٰ کے راستے پر ڈالنے کا جتن کرتا ہے۔ لیکن جب وہ قوم اللہ تعالیٰ کی طرف آنے سے انکار کردیتی ہے اور اپنی سرکشی میں بڑھتی چلی جاتی ہے اور پیغمبر کی ساری کاوشیں ناکام ہوجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک وقت مقرر کردیتا ہے، اس وقت کے آنے تک اسے ڈھیل ملتی رہتی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی اصلاح کرلیں، لیکن جب یہ ڈھیل کا وقت گزر جاتا ہے اور قوم اپنی اصلاح کی ہر کوشش کو جھٹک دیتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب انھیں تباہ کردیتا ہے۔ وہ بستیاں جن پر قریش اپنے تجارتی سفروں میں گزرا کرتے تھے مراد اس سے قوم عاد اور قوم ثمود اور قوم لوط کی بستیاں ہیں جن کے کھنڈرات یا ان کے کچھ آثار ابھی تک قائم ہیں جنھیں ہر دیکھنے والا دیکھ کر اندازہ کرسکتا تھا کہ کسی زمانے میں ان بستیوں کے رہنے والے لوگ نہایت ترقی یافتہ تھے۔ دنیا کی ہر نعمت انھیں میسر تھی، لیکن انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ توڑ لیا تھا جس کے نتیجے میں انسانیت کی ایک ایک قدر کو انھوں نے پامال کر ڈالا۔ ان کی اصلاح کے لیے رسول بھیجے گئے لیکن انھوں نے ان کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے ان کی دشمنی اور اذیت رسانی پر کمر باندھ لی۔ حتیٰ کہ ان کے قتل کے منصوبے بنانے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا رسول بار بار انھیں تنبیہ کرتا رہا کہ تم اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرو، میں تمہارا خیرخواہ بن کے آیا ہوں، لیکن اگر تم نے میری خیرخواہی سے فائدہ نہیں اٹھایا تو وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آسکتی ہے۔ قدرت کی طرف سے تمہاری تباہی کا ایک وقت مقرر ہوچکا ہے اس سے پہلے پہلے تم اپنی اصلاح کرلو اور اللہ تعالیٰ کے آستانے پر جھک جاؤ لیکن جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی خیرخواہی سے فائدہ اٹھانے کی بجائے سرکشی اور تمرد کی انتہا کردی تو پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں تباہ کردیا۔ ان بستیوں کے کھنڈرات ان کی تباہی کی داستان سنانے کے لیے کافی ہیں۔ قریش کے لوگ وہاں سے گزرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے ان کھنڈرات کو دیکھ بھی سکتے ہیں اور ان کی زبان حال سے وہ داستان سن بھی سکتے ہیں۔ اب بالکل وہی صورتحال قریش کو بھی درپیش ہے۔ اگر انھوں نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کو قبول نہ کیا اور اپنے کافرانہ اور مشرکانہ رویئے کو نہ چھوڑا تو یہاں بھی انھیں بستیوں کی تاریخ دہرائی جائے گی کیونکہ انھیں کی طرح ان کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہوچکا ہے اور یہ آہستہ آہستہ اس وقت کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں جب وہ ہلاکت کا وقت آجائے گا تو پھر ان کو کہیں پناہ نہیں مل سکے گی اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوگا۔
Top