Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 189
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ١ؕ قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّ١ؕ وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰى١ۚ وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ
: وہ آپ سے پوچھتے ہیں
عَنِ
: سے
الْاَهِلَّةِ
: نئے چاند
قُلْ
: آپ کہ دیں
ھِىَ
: یہ
مَوَاقِيْتُ
: (پیمانہ) اوقات
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
وَالْحَجِّ
: اور حج
وَلَيْسَ
: اور نہیں
الْبِرُّ
: نیکی
بِاَنْ
: یہ کہ
تَاْتُوا
: تم آؤ
الْبُيُوْتَ
: گھر (جمع)
مِنْ
: سے
ظُهُوْرِھَا
: ان کی پشت
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنِ
: جو
اتَّقٰى
: پرہیزگاری کرے
وَاْتُوا
: اور تم آؤ
الْبُيُوْتَ
: گھر (جمع)
مِنْ
: سے
اَبْوَابِهَا
: ان کے دروازوں سے
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: کامیابی حاصل کرو
(لوگ تم سے اَھِلِّۃِ کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ! یہ لوگوں کے فوائد کے لیے اور حج کے اوقات ہیں اور نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑوں سے داخل ہو بلکہ نیکی اس کی ہے جو حدود الٰہی کا احترام ملحوظ رکھے۔ تم اپنے گھروں میں ان کے دروازوں ہی سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پائو
یَسْئَلُوْنَـکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ ط قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ط وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوْا الْـبُـیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی ج وَاْتُوا الْـبُـیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا ص وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ (189) (لوگ تم سے اَھِلَّۃِ کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو ! یہ لوگوں کے فوائد کے لیے اور حج کے اوقات ہیں اور نیکی یہ نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑوں سے داخل ہو بلکہ نیکی اس کی ہے جو حدود الٰہی کا احترام ملحوظ رکھے۔ تم اپنے گھروں میں ان کے دروازوں ہی سے آیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پائو) اَھِلَّۃِکا مفہوم اس آیت کریمہ کا ایک ایک لفظ گہرے غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ سب سے پہلے تو لوگوں کے سوال کو دیکھئے ! سوال اَھِلَّۃِ کے بارے میں ہے۔ اَھِلَّۃِ ” ھلال “ کی جمع ہے اور ہلال ہر مہینے کے پہلی تاریخ کے چاند کو کہتے ہیں۔ جبکہ وہ ایک شاخ کی طرح باریک ہوتا ہے پھر بڑھتے بڑھتے بدر بن جاتا ہے۔ اگر تو سوال صرف ھلال کے بارے میں ہوتا تو یقینا اس میں گھٹنے بڑھنے کا تصور شامل نہ ہوتاکیون کہ پہلی رات کا چاند ہلال ہے اور اس کے بعد اس میں تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے اور وہ ہرگز رتے دن کے ساتھ ہلال کے نام سے نکلتا جاتا ہے۔ جمع جس طرح افراد کی تعداد پر دلالت کرتا ہے اسی طرح بعض دفعہ تغیرات پر بھی دلالت کرتا ہے۔ تو اَھِلَّۃِ کو جمع لاکر معلوم ہوتا ہے چاند کے تغیرات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گھٹتا بڑھتاکیوں ہے ؟ اور آفتاب کی طرح ایک حالت پر کیوں نہیں رہتا ؟ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ اس کے گھٹنے بڑھنے سے متعلق سوال سائنسی اور فلکیاتی پہلو سے نہیں تھا بلکہ اس کی افادیت کے پہلو سے تھا۔ اس میں جو مصلحت مضمر ہے اس کے پہلو سے تھا اور بطور خاص ان اوہام و خرافات کے بارے میں تھا جس میں عرب بری طرح مبتلا تھے۔ چاند سے اچھے یابرے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی یابیشی اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر بھی پڑتا ہے۔ چاند کے زیر اثر مدوجزر سے انھوں نے بعض عقائد وابستہ کر رکھے تھے ان کے کاہن چاند اور ستاروں کی حرکت، گردش اور ان کی منزلوں سے عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے تھے اور اسی سے لوگوں کو آنے والے حالات کی خبر دینے کا دعویٰ کرتے تھے۔ مظاہرِ قدرت اور مظاہرِ فطرت کی پوجا تو عام طور پر جاہل قوموں میں موجود رہی ہے اور وہ کسی نہ کسی حوالے سے چاند اور سورج کو اپنی زندگیوں کے حالات پر اثر انداز سمجھتے رہے ہیں۔ مسلمان دورجاہلیت میں چونکہ ان باتوں میں مبتلارہ چکے تھے اس لیے معلوم ہوتا ہے انھیں باتوں کو سمجھنے کے لیے انھوں نے آنحضرت ﷺ سے سوال کیا۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ سوال چاند کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں نہیں تھا کیونکہ اگر یہ سوال چاند یا اس کی مختلف تبدیلیوں کے حوالے سے ہوتا تو پھر ہلال کو جمع نہ لایا جاتا بلکہ یَسْئَلُوْنَـکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ کی بجائے عن الہلال ہوتا۔ ان کا خیال ہے کہ جمع کی صورت میں اس لفظ کا استعمال مہینوں ہی کے لیے معروف ہے۔ مزید یہ کہ اس پر ال اس بات کی دلیل ہے کہ سوال کچھ مخصوص مہینوں کے بارے میں کیا جارہا ہے اور سیاق وسباق پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے یہ سوال اشھرحرم اور ان کے احکام وآداب سے متعلق ہے۔ بات ان کی بھی غلط نہیں اس عاجز کا گمان تو یہ ہے کہ اس لفظ کے استعمال میں دونوں باتوں کی گنجائش موجود ہے کہ سوال چاند کی مختلف تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اعتقادات کے بارے میں بھی ہے اور اشھرحرم کے بارے میں بھی۔ چناچہ نہایت جامعیت اور معجزانہ اختصار کے ساتھ اس کا جواب دیا گیا ہے۔ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ” کہہ دو ! یہ لوگوں کے فوائد کے لیے اور حج کے اوقات ہیں “۔ دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہوسکتا ہے ” یہ اوقات مقررہ ہیں لوگوں کے واسطے اور حج کے واسطے “۔ مَوَاقِیْت، میقات کی جمع ہے۔ اس کا معنی ” اوقات “ بھی ہوسکتا ہے اور ” اوقات بتانے کا ذریعہ “ بھی۔ اس جملے میں نہایت گہرائی ہے۔ پہلی بات تو یہ فرمائی جارہی ہے کہ تم نے چاند کے بارے میں ایسے ایسے اعتقادات بنارکھے ہیں کہ گویا تم نے اسے الوہیت کے مقام پر فائز کردیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے تمہاری خدمت کے لیے مقرر کیا ہے۔ جہاں اس کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ تمہارے پھلوں میں مٹھاس پیدا کرے، تمہارے غلے میں گداز پیدا کرے، تمہارے سمندروں میں مدوجزر کی کیفیت پیدا کرکے سمندر کی تہہ سے تمہارے لیے موتی اچھالے، اسی طرح اسے تمہاری خدمت کے لیے ایک قدرتی جنتری بھی بنایا ہے جو آسمان پر نمودار ہو کر دنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ وہ جس طرح تمہارے لیے نظرافروزی کا سامان ہے، اداس دلوں کے لیے مرہم ہے اور حسن کا استعارہ ہے، اسی طرح وہ برابر تمہیں اوقات کی تبدیلی کی اطلاع دیتارہتا ہے۔ مسلمانوں کا ہجری کیلنڈر تمام تر اسی پر انحصار کرتا ہے۔ ہماری عبادات کا نظام قمری حساب سے چلتا ہے۔ اسی طرح ہمارے حج کے طریقے اور اس کے ایام کا تعین بھی اسی سے ہوتا ہے۔ جو چاند اس طرح تمہاری ڈیوٹی پر لگا ہوا ہے اور تمہارے خادم کی حیثیت سے اپنا فرض انجام دے رہا ہے اور اسی خدمت کے سلسلے میں وہ فراخیِ افلاک میں محو گردش رہتا ہے۔ تم سے بڑھ کر کم عقل کون ہوگا ؟ کہ تم نے اسے خادم سمجھنے کی بجائے نہ صرف اپنا مخدوم سمجھا بلکہ اپنا معبود بنالیا۔ دوسری بات یہ فرمائی جارہی ہے کہ انہی مہینوں کے تعین میں جو قمری حساب سے ہوتے ہیں تمہارے لیے مفادات کا ایک جہان مضمر ہے۔ وہ اس طرح کہ اسی چاند کی مدد سے تم اشھرحرم کا تعین کرتے ہو جو چار مہینے ہیں۔ یعنی رجب، ذی القعد، ذی الحج اور محرم۔ ان چار مہینوں میں پورے جزیرئہ عرب میں قبائل کی باہمی لڑائیاں رک جاتی تھیں۔ عرب اس اعتقاد میں بندھا ہوا تھا کہا شھرحرم میں لڑنا حرام ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ لوگ آزادانہ مال تجارت لے کرنکلتے دور دراز علاقوں کا سفر کرتے اور بےحدو بےحساب مالی مفادات حاصل کرتے۔ لڑائیاں رک جانے اور راستے محفوظ ہوجانے کے باعث وہ پوری طرح تجارت کرنے میں آزاد تھے اور دوسرا بڑا فائدہ یہ تھا کہ انھیں مہینوں میں حج ہوتا اور رجب میں عام طور پر عرب عمرے کے لیے آتے اور اپنے ساتھ فروانی کے ساتھ مال تجارت بھی لے کرآتے۔ جس کے نتیجے میں مکہ کے قرب و جوار میں تجارتی میلے کا سماں پیدا ہوجاتا اور مکہ کے بازار قسم قسم کے سامان سے لد جاتے۔ اس تجارت سے جس طرح دوسرے قبیلوں کے لوگ فائدہ اٹھاتے اس سے بڑھ کر قریش کو فائدہ پہنچتا اس لیے فرمایا کہ یہ چاند کے ذریعے مہینوں کا تعین تمہارے فوائد کا ذریعہ ہے اور حج کے اوقات مقرر کرنے کا ذریعہ ہے۔ ہر صورت میں اس سے تمہیں جہاں امن ملتا ہے وہیں تمہاری زندگی کے اسباب بھی فراہم ہوتے ہیں۔ ایک بدعت کا ازالہ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا ” گھروں میں پچھواڑے سے آنا کوئی نیکی نہیں “۔ حج کی مناسبت سے بعض احکام شروع کیے جارہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات ایک ایسی بدعت کا ازالہ کیا جارہا ہے جو عربوں نے اپنے طور پر ایجاد کرلی تھی لیکن اس کی نسبت ملت ابراہیم کی طرف کرتے تھے۔ قومیں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو ان میں یہ عجیب خصلت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے احکام کو نظر انداز کرتی ہیں لیکن اپنی خانہ ساز بدعات و خرافات پر اس حدتک اصرار کرتی ہیں کہ انھیں کو اصل دین کی حیثیت دے دی جاتی ہے۔ دینی احکام پر عمل کرنے کے لیے ان سے کہا جائے تو کبھی ان پر اثر نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ وہ اس کا برا مانتے ہیں۔ لیکن اپنی بدعات و خرافات پر وہ اس قدر متشدد ہوتے ہیں کہ اس کی مخالفت کرنے والے سے لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ عرب بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت پر چلنے کا دعویٰ کرتے تھے اور اسی کے زیر اثر حج کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے۔ لیکن فریضہ حج کی ادائیگی میں انھوں نے اپنے طور پر ایسی ایسی باتیں ایجاد کررکھی تھیں جس کا شریعتِ ابراہیمی سے دور کا بھی تعلق نہ تھا لیکن انھیں ان باتوں پر اصرار تھا۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ یہ لوگ جب حج کرکے واپس آتے یا حج کے دوران انھیں گھروں میں آنے کی ضرورت پڑتی تو ان دروازوں سے گھروں میں داخل نہیں ہوتے تھے جن دروازوں سے وہ نکلنے کے عادی تھے بلکہ گھر کے پچھواڑے سے کسی دوسرے راستے سے داخل ہوتے۔ اس کے لیے انھیں دیوار بھی توڑنا پڑتی تو توڑ ڈالتے۔ اس کے پس منظر میں عجیب و غریب فلسفہ کار فرما تھا کہ جن دروازوں سے ہم گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے نکلے ہیں حج کے نتیجے میں پاک ہوجانے کے باعث انھیں دروازوں سے گھروں میں داخل ہونا یقیناتقویٰ کے خلاف ہے۔ دین سے دوری، فہمِ دین سے محرومی کا سبب بن جاتی ہے ذرا غور فرمائیے ! جب کوئی قوم دین سے دور ہوتی ہے تو دین کے فہم سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ اگر پاک ہوجانے کے بعد گھروں کے دروازوں سے گھروں میں جانا خلاف تقویٰ ہے تو پھر کیا ان گھروں میں رہنا خلاف تقویٰ نہیں ؟ اگر تم واقعی اپنے اس نام نہاد تقویٰ کی پابندی کرنا چاہتے ہو تو پھر راستوں کی کیا بحث ہے ؟ سرے سے پرانے گھر مسمار کرکے نئے گھر بنائیے تاکہ تمہارے تقویٰ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لیکن ان کے ذہن میں جو فلسفہ بیٹھ چکا تھا وہ نکلنے کا نام نہ لیتا تھا۔ اسی طرح کا ایک وہم اور بھی تھا جس میں وہ حج ہی کے سلسلے میں مبتلا تھے وہ یہ کہ بعض قبائل کے لوگ بالکل برہنہ حالت میں مرد بھی اور عورتیں بھی بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور دلیل ان کی یہ تھی کہ یہ لباس جو خالص دنیا داری ہے اور زینت و آرائش کی چیزوں میں شامل ہے اسے ہم خالص اللہ کے گھر کا طواف کرتے ہوئے کس طرح اپنے جسموں پر باقی رکھ سکتے ہیں کیونکہ دنیاداری اور دینداری تو جمع نہیں ہوسکتیں۔ اس لیے جس حال میں ہمیں اللہ نے دنیا میں بھیجا تھا ہمیں اس کے گھر کا طواف بھی اسی حالت میں کرنا چاہیے۔ چناچہ قرآن کریم نے اس طرح کی خرافات کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ گھروں میں سامنے کے دروازوں سے آنے یا پچھواڑے کے دروازوں سے آنے کا تقویٰ سے کوئی تعلق نہیں۔ تقویٰ تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا نام ہے۔ اس کی منزل اللہ کی خوشنودی ہے اور اس کے حدود کی پاسداری ایک مومن کی فکر ہے۔ اسی مقصد کے لیے ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہنا یہ اس کا اصل مطلوب ہے لیکن تم نے ایسی خرافات کو مطلوب بنالیا ہے جس کا تقویٰ اور دین سے کوئی تعلق نہیں۔
Top