Ruh-ul-Quran - An-Noor : 56
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاَقِيْمُوا : اور تم قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتُوا : اور ادا کرو تم الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَاَطِيْعُوا : اور اطاعت کرو الرَّسُوْلَ : رسول لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور نماز کو قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰ تُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّـکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ (النور : 56) (اور نماز کو قائم کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ) مسلمانوں کو تین ہدایات مسلمانوں سے کہا جارہا ہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے دل نفاق کی آلودگی سے محفوظ رہیں اور تمہاری اجتماعیت میں دراڑیں نہ پڑیں تو اس کا علاج یہ ہے کہ نماز قائم کرتے رہو۔ نماز ایک ایسا عمل ہے جو اللہ تعالیٰ سے وفاداری کے رشتے کو مستحکم کرتا اور دل کے اخلاص کو ہر آلودگی سے پاک کردیتا ہے۔ باجماعت نماز مسلمانوں میں شیرازہ بندی کی ضمانت دیتی ہے۔ اگر اسے پورے آداب اور مقاصد کے ساتھ ادا کیا جائے تو مسلمانوں کے دلوں کو آپس میں جوڑنے اور باہمی حالات سے آگاہ رہنے اور ایک ہی منزل کے مسافر بننے کے لیے سب سے کارگر ذریعہ ہے۔ مزید فرمایا کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ مال و دولت تمہاری ترجیح نہ بننے پائے اور دولت کا فتنہ جو اس امت کے لیے سب سے بڑی آزمائش بنایا گیا ہے تمہیں اپنی گرفت میں نہ لینے پائے۔ اور تم اسلام کے اجتماعی مصالح کو ہر بات پر ترجیح دیتے رہو تو پھر ضروری ہے کہ پابندی سے زکوٰۃ ادا کرتے رہو۔ اس سے تمہارے اندر طبقات پیدا نہیں ہوں گے، غربت کو پَر پھیلانے کا موقع نہیں ملے گا، مال و دولت کو ذاتی محنت کا نتیجہ اور ذاتی ملکیت سمجھنے کا فتنہ سر نہیں اٹھائے گا بلکہ تم مال و دولت کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ حقوق کو ادا کرنے کی فکر کرتے رہو گے۔ اور تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے اندر نظریاتی انتشار پیدا نہ ہو، طبیعتیں اور عقلیں بےقابو نہ ہوں، اذواق و میلانات پراگندہ نہ ہونے پائیں۔ اور کسی غلط شخص کو شعبدہ بازی کے زور پر اپنی ذات کو بالابلند کرنے کا موقع نہ ملے تو پھر نہایت محبت اور عقیدت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔ اطاعت کا حکم انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اس ایک حکم پر عمل کے نتیجہ میں زندگی کا ہر شعبہ فساد سے محروم ہوجاتا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اگر تم ان تینوں ہدایات پر عمل کرنے میں یکسو رہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید کی جانی چاہیے کہ وہ تمہیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے گا اور اپنی رحمت کی چادر تم پر تان دے گا۔
Top