Ruh-ul-Quran - An-Noor : 55
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْئًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
وَعَدَ اللّٰهُ : اللہ نے وعدہ کیا الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں سے وَعَمِلُوا : اور کام کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ : وہ ضرور انہیں خلافت دے گا فِي الْاَرْضِ : زمین میں كَمَا : جیسے اسْتَخْلَفَ : اس نے خلافت دی الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے وَلَيُمَكِّنَنَّ : اور ضرور قوت دے گا لَهُمْ : ان کے لیے دِيْنَهُمُ : ان کا دین الَّذِي : جو ارْتَضٰى : اس نے پسند کیا لَهُمْ : ان کے لیے وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ : اور البتہ وہ ضرور بدل دے گا ان کے لیے مِّنْۢ بَعْدِ : بعد خَوْفِهِمْ : ان کا خوف اَمْنًا : امن يَعْبُدُوْنَنِيْ : وہ میری عبادت کریں گے لَا يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک نہ کریں گے بِيْ : میرا شَيْئًا : کوئی شے وَمَنْ : اور جس كَفَرَ : ناشکری کی بَعْدَ ذٰلِكَ : اس کے بعد فَاُولٰٓئِكَ هُمُ : پو وہی لوگ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان (جمع)
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کیے کہ ان کو ملک میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔ اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں
وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ م بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ط یَعْبُدُوْنَنِیْ لاَ یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا ط وَمَنْ کَفَرَبَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔ (النور : 55) (اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کیے کہ ان کو ملک میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔ اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ کے وعدے چند صفات کے ساتھ مشروط ہیں اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں، اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں۔ خلافت کا غلط مفہوم بعض لوگ خلافت کو محض حکومت و فرمانروائی اور غلبہ و تمکن کے معنی میں لے لیتے ہیں، پھر اس آیت سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس کو بھی دنیا میں یہ چیز حاصل ہے وہ مومن اور صالح اور اللہ کے پسندیدہ دین کا پیرو اور بندگی حق پر عامل اور شرک سے مجتنب ہے اور اس پر مزید ستم یہ ڈھاتے ہیں کہ اپنے اس غلط نتیجے کو ٹھیک بٹھانے کے لیے ایمان، صَلاح، دین حق، عبادتِ الٰہی اور شرک، ہر چیز کا مفہوم بدل کر وہ کچھ بنا ڈالتے ہیں جو ان کے اس نظریئے کے مطابق ہو۔ یہ قرآن کی بدترین معنوی تحریف ہے جو یہود و نصاریٰ کی تحریفات سے بھی بازی لے گئی ہے۔ اس نے قرآن کی ایک آیت کو وہ معنی پہنا دیئے ہیں جو پورے قرآن کی تعلیم کو مسخ کر ڈالتے ہیں اور اسلام کی کسی ایک چیز کو بھی اس کی جگہ پر باقی نہیں رہنے دیتے۔ خلافت کی اس تعریف کے بعد لامحالہ وہ سب لوگ اس آیت کے مصداق بن جاتے ہیں جنھوں نے کبھی دنیا میں غلبہ تمکن پایا ہے یا آج پائے ہوئے ہیں، خواہ وہ خدا، وحی، رسالت، آخرت ہر چیز کے منکر ہوں اور فسق و فجور کی ان تمام آلائشوں میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہوں جنھیں قرآن نے کبائر قرار دیا ہے، جیسے سود، زنا، شراب اور جواء۔ اب اگر یہ سب لوگ مومن صالح ہیں اور اسی لیے خلافت کے منصب عالی پر سرفراز کیے گئے ہیں تو پھر ایمان کے معنی قوانینِ طبیعی کو ماننے اور صلاح کے معنی ان قوانین کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کے سوا اور کیا ہوسکتے ہیں ؟ اور اللہ کا پسندیدہ دین اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ علوم طبیعی میں کمال حاصل کرکے صنعت و حرفت اور تجارت و سیاست میں خوب ترقی کی جائے ؟ اور اللہ کی بندگی کا مطلب پھر اس کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے کہ ان قاعدوں اور ضابطوں کی پابندی کی جائے جو انفرادی اور اجتماعی سعی و جہد کی کامیابی کے لیے فطرتاً مفید اور ضروری ہیں ؟ اور شرک پھر اس کے سوا اور کس چیز کا نام رہ جاتا ہے کہ ان مفید قواعد و ضوابط کے ساتھ کوئی شخص یا قوم کچھ نقصان دہ طریقے بھی اختیار کرلے ؟ مگر کیا کوئی شخص جس نے کھلے دل اور کھلی آنکھوں سے کبھی قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہو، یہ مان سکتا ہے کہ قرآن میں واقعی ایمان اور عمل صالح اور دین حق اور عبادتِ الٰہی اور توحید اور شرک کے یہی معنی ہیں ؟ یہ معنی یا تو وہ شخص لے سکتا ہے جس نے کبھی پورا قرآن سمجھ کر نہ پڑھا ہو اور صرف کوئی آیت کہیں سے اور کوئی کہیں سے لے کر اس کو اپنے نظریات و تصورات کے مطابق ڈھال لیا ہو یا پھر وہ شخص یہ حرکت کرسکتا ہے جو قرآن کو پڑھتے ہوئے ان سب آیات کو اپنے زعم میں سراسر لغو اور غلط قرار دیتا چلا گیا ہو جن میں اللہ تعالیٰ کو واحد رب اور اِلٰہ اور اس کی نازل کردہ وحی کو واحد ذریعہ ہدایت اور اس کے مبعوث کردہ ہر پیغمبر کو حتمی طور پر واجب الاطاعت رہنما تسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمے پر ایک دوسری زندگی کے محض مان لینے ہی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس زندگی میں اپنی جوابدہی کے تخیل سے منکر یا خالی الذہن ہو کر محض اس دنیا کی کامیابیوں کو مقصود سمجھتے ہوئے کام کریں گے وہ فلاح سے محروم رہیں گے۔ قرآن میں ان مضامین کو اس قدر کثرت سے اور ایسے مختلف طریقوں سے اور ایسے صریح و صاف الفاظ میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ ہمارے لیے یہ باور کرنا مشکل ہے کہ اس کتاب کو ایمانداری کے ساتھ پڑھنے والا کوئی شخص کبھی ان غلط فہمیوں میں بھی پڑ سکتا ہے جن میں آیت استخلاف کے یہ نئے مفسرین مبتلا ہوئے ہیں۔ حالانکہ لفظ خلافت و استخلاف کے جس معنی پر انھوں نے یہ ساری عمارت کھڑی کی ہے وہ ان کا اپنا گھڑا ہوا ہے، قرآن کا جاننے والا کوئی شخص اس آیت میں وہ معنی کبھی نہیں لے سکتا۔ خلافت کا صحیح مفہوم قرآن دراصل خلافت اور استخلاف کو تین مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے اور ہر جگہ سیاق وسباق سے پتہ چل جاتا ہے کہ کہاں کس معنی میں یہ لفظ بولا گیا ہے۔ اس کے ایک معنی ہیں ” خدا کے دیئے ہوئے اختیارات کا حامل ہونا۔ “ اس معنی میں پوری اولادِ آدم زمین میں خلیفہ ہے۔ دوسرے معنی ہیں ” خدا کے اقتدارِاعلیٰ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے امرشرعی (نہ کہ محض امر تکوینی) کے تحت اختیاراتِ خلافت کو استعمال کرنا۔ “ اس معنی میں صرف مومن صالح ہی خلیفہ قرار پاتا ہے کیونکہ وہ صحیح طور پر خلافت کا حق ادا کرتا ہے اور اس کے برعکس کافر و فاسق خلیفہ نہیں بلکہ باغی ہے کیونکہ وہ مالک کے ملک میں اس کے دیئے ہوئے اختیارات کو نافرمانی کے طریقے پر استعمال کرتا ہے۔ تیسرے معنی ہیں ” ایک دور کی غالب قوم کے بعد دوسری قوم کا اس کی جگہ لینا۔ “ پہلے دونوں معنی خلافت بمعنی ” نیابت “ سے ماخوذ ہیں اور یہ آخری معنی خلافت بمعنی ” جانشینی “ سے ماخوذ، اور اس لفظ کے یہ دونوں معنی لغت عرب میں معلوم و معروف ہیں۔ اب جو شخص بھی یہاں اس سیاق وسباق میں آیت استخلاف کو پڑھے گا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس امر میں شک نہیں کرسکتا کہ اس جگہ خلافت کا لفظ اس حکومت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو اللہ کے امرشرعی کے مطابق (نہ کہ محض قوانینِ فطرت کے مطابق) اس کی نیابت کا ٹھیک ٹھیک حق ادا کرنے والی ہو۔ اسی لیے کفار تو درکنار، اسلام کا دعویٰ کرنے والے منافقوں تک کو اس وعدے میں شریک کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ اسی لیے فرمایا جارہا ہے کہ اس کے مستحق صرف ایمان اور عمل صالح کی صفات سے متصف لوگ ہیں۔ اسی لیے قیام خلافت کا ثمرہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ کا پسند کردہ دین یعنی اسلام، مضبوط بنیادوں پر قائم ہوجائے گا۔ اور اسی لیے اس انعام کو عطا کرنے کی شرط یہ بتائی جارہی ہے کہ خالص اللہ کی بندگی پر قائم رہو جس میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے۔ اس وعدے کو یہاں سے اٹھا کر بین الاقوامی چورا ہے پر لے پہنچنا اور امریکہ سے لے کر روس تک جس کی کبریائی کا ڈنکا بھی دنیا میں بج رہا ہو اس کے حضور اسے نذر کردینا جہالت کی طغیانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ یہ سب طاقتیں بھی اگر خلافت کے منصب عالی پر سرفراز ہیں تو آخر فرعون اور نمرود ہی نے کیا قصور کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں لعنت کا مستحق قرار دیا ؟ ایک ضروری بات اس جگہ ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے۔ یہ وعدہ بعد کے مسلمانوں کو تو بالواسطہ پہنچتا ہے۔ بلاواسطہ اس کے مخاطب وہ لوگ تھے جو نبی ﷺ کے عہد میں موجود تھے۔ وعدہ جب کیا گیا تھا اس وقت واقعی مسلمانوں پر حالت خوف طاری تھی اور دین اسلام نے ابھی حجاز کی زمین میں بھی مضبوط جڑ نہیں پکڑی تھی۔ اس کے چند سال بعد یہ حالت خوف نہ صرف امن سے بدل گئی بلکہ اسلام عرب سے نکل کر ایشیا اور افریقہ کے بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کی جڑیں اپنی پیدائش کی زمین ہی میں نہیں کرہ زمین میں جم گئیں۔ یہ اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ حضرت ابوبکر صدیق، عمرفاروق اور عثمان غنی ( رض) کے زمانے میں پورا کردیا۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کرسکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انھوں نے حضرت عمرفاروق ( رض) کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں : ” اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید ونصرت فرمائی، یہاں تک کہ یہ ترقی کرکے اس منزل تک پہنچ گیا۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے۔ وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ … اللہ اس وعدے کو پورا کرکے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا۔ اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہوجاتا ہے اور پراگندہ ہوجانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قومی بنادیا ہے۔ آپ یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہوجائے گا اور نوبت یہ آجائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہوگی اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظریں جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے۔ ، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کردینے پر لگا دیں گے۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آئے ہیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے۔ “ دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جنابِ امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھہرا رہے ہیں۔ (تفہیم القرآن) مزید وضاحت کے لیے حضرت عدی کی روایت ملاحظہ فرمایئے :۔ حضرت عدی بن ( رض) حاتم سے مروی ہے کہ میں بارگاہِ رسالت میں حاضر تھا کہ ایک صحابی حاضر ہوا اور اس نے فقروفاقہ کی شکایت کی۔ دوسرا آیا اس نے راہزنوں کی دست درازیوں کا شکوہ کیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا اے عدی ! کیا تو نے حیرہ کا شہر دیکھا ہے ؟ میں نے عرض کیا مجھے دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن میں نے لوگوں سے اس کے بارے میں سنا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اگر تیری زندگی دراز ہوئی تو، تو دیکھے گا۔ ایک عورت اونٹنی پر سوار ہو کر حیرہ سے روانہ ہوگی اور آکر کعبہ کا طواف کرے گی اور خدا کے بغیر اسے کسی کا ڈر نہیں ہوگا۔ میں دل میں خیال کرنے لگا کہ بنی طے قبیلہ کے قزاق اور راہزن کہاں چلے جائیں گے۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا اے عدی، تم کسریٰ کے خزانوں کو فتح کرو گے۔ میں نے عرض کی کیا کسریٰ بن ہرمز یعنی شہنشہاہِ ایران۔ حضور ﷺ نے فرمایا وہی کسریٰ بن ہرمز۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا تم دیکھو گے لوگ ہاتھوں میں سونا اور چاندی لیے ہوئے کسی غریب کی تلاش میں پھر رہے ہوں گے لیکن مملکت اسلامی میں انھیں کوئی غریب نہیں ملے گا۔ عدی کہتے ہیں میں نے حیرہ سے اونٹنی پر سوار ہو کر آنے والی عورت کو بھی کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور میں خود ان لوگوں میں سے تھا جنھوں نے کسریٰ کے خزانے فتح کیے تھے۔ بعض لوگ جو صحابہ کرام ( رض) کی عظمت شان کا انکار کرنا ہی اپنے ایمان کا کمال سمجھتے ہیں وہ اگر اپنی کتابوں کا مطالعہ کرنے کی زحمت ہی گوارا کرتے تو اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔ انھیں یقین ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جو وعدہ فرمایا ہے اور حضور کریم ﷺ نے جو وعدے فرمائے ہیں جن کا ذکر خود ان لوگوں کی کتابوں میں موجود ہے وہ وعدے خلفاء راشدین کے عہد سعادت آثار میں پورے ہوئے ہیں۔ ان کے امام کلینی جن کی کتاب کافی ان کے ہاں حدیث کی معتبر ترین کتاب ہے ان کی روایت ملاحظہ فرمایئے۔ عن ابی عبداللہ (علیہ السلام) قال لما حضر رسول اللہ الخندق مروا بکدیۃ فتناول رسول اللہ المعول من ید امیرالمٔومنین اومن ید سلمان فضرب بھا ضربۃ فتفرقت بثلاث فرق وقال رسول اللہ ﷺ لقد فُـتحت علی فی ضربتی ھذہ کنوز کسریٰ و قیصر (فروغ کافی کتاب الروضہ ص 102) ترجمہ : ” حضرت امام جعفر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جب حضور ﷺ نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو راستہ میں ایک چٹان حائل ہوگئی۔ حضور ﷺ نے گینتی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دست مبارک سے یا حضرت سلمانِ فارسی ( رض) لے لی اور اس چٹان پر ایک ضرب لگائی اور اس کے تین ٹکڑے ہوگئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا لقد فُـتحت علی فی ضربتی ھذہ کنوز کسریٰ و قیصر۔ میری اس ضرب سے میرے لیے کسریٰ اور قیصر کے خزانے فتح کردیئے گئے ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ یہ خزانے حضرت فاروق اعظم ( رض) کے زمانہ میں فتح ہوئے۔ روایت میں فتحت علی کے الفاظ ایک حق بین کے لیے روشنی کا وہ مینار ہیں جس سے شک و شبہ کا ادنیٰ احتمال بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ اسی واقعہ کو صاحب ” حملہ حیدری “ نے ان اشعار میں ذکر کیا ہے، یہ بھی ملاحظہ فرمایئے۔ بپاسخ چنیں گفت خیرالبشر کہ چوں جست برق نخت از حجر نمودند ایوانِ کسریٰ بمن دوم قصر روم، سوم از یمن سبب راچنیں گفت روح الامین کہ بعد از من اعوان و انصارِ دین بریں مملکت ہا مسلط شوند بآئینِ من اہل آں بگرو ند بدیں مژدہ و شکر و لطف خدا بہر بار تکبیر کر دم ادا شنیدند آں مژدہ چوں مومناں کشیدند تکبیر شادی کناں ترجمہ : 1 حضور نبی کریم ﷺ نے جواب ارشاد فرمایا کہ جب اس چٹان کو ضرب لگانے سے پہلی مرتبہ آگ کا شعلہ نکلا۔ 2 تو مجھے کسریٰ کا محل دکھایا گیا۔ دوسری مرتبہ قیصر روم کا محل اور تیسری مرتبہ یمن۔ 3 اس کی وجہ جبرائیل امین نے یوں بیان کی کہ میرے بعد دین کے مددگار اور انصار۔ 4 ان ملکوں پر قابض ہوں گے اور وہاں کے باشندوں کو میری شریعت کا پابند کریں گے۔ 5 اس خوشخبری کو سن کر اور اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میں نے تین بار اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔ 6 جب اہل ایمان نے حضور ﷺ کی زبان پاک سے یہ خوشخبری سنی تو سب نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ یہ چیز غور طلب ہے کہ حضور ﷺ نے ان ملکوں کی فتوحات کو اپنی فتوحات قرار دیا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کا لطف اور احسان فرمایا ہے اور اظہارِ شکر کے لیے حضور ﷺ نے اور حضور ﷺ کے غلاموں نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے۔ اگر خدانخواستہ حضرت صدیق و فاروق خلیفہ برحق نہ ہوتے بلکہ (نعوذباللہ) جابر اور غاصب ہوتے تو کیا ان کے زمانہ خلافت میں جو فتوحات ہوئیں انھیں حضور ﷺ کی فتوحات کہنا درست ہوتا ؟ اور ایسی فتوحات پر حضور ﷺ فرحت و شادمانی کا اظہار فرماتے ؟ کوئی ادنیٰ عقل و فہم رکھنے والا انسان بھی ان واقعات کی روشنی میں شیخین کی خلافت پر اعتراض کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ ابھی پورا نہیں ہوا۔ جب امام مہدی (علیہ السلام) ظاہر ہوں گے تو اس وقت یہ وعدہ پورا ہوگا۔ ضد اور تعصب کا کوئی علاج نہیں لیکن حق کی جستجو کرنے والے کے لیے آیت میں ” منکم “ کا ایک لفظ ہی کافی ہے یعنی صحابہ کرام ( رض) جو اس آیت کے مخاطب تھے وہی ” منکم “ کا مرجع ہیں اور اولین وعدہ ان سے ہے۔ نیز اگر ان کی اس بات کو صحیح مان لیا جائے تو ثابت ہوگا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت میں بھی یہ وعدہ ایفا نہ ہوا۔ کم از کم ہم ایسا کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ (ضیاء القرآن) کفر کا مفہوم وَمَنْ کَفَرَبَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ” اور جن لوگوں نے اس کے بعد کفر کیا یہی لوگ حد سے گزرنے والے ہیں۔ کفر کا لغوی معنی ناشکری، یعنی کفرانِ نعمت ہے۔ اور اصطلاحی معنی دین کی بنیادی باتوں، یعنی ایمانیات سے انکار ہے جو ایمان کی ضد ہے۔ یہاں دونوں معنی ہی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ اصلاحی معنی کے لحاظ سے منافقین کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کیے گئے وعدوں کو پورا فرماتے ہوئے مسلمانوں کو خلافتِ ارضی سے نوازے اور ان کے دین کو تمکن عطا کردے اور ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے یعنی انھیں زمین پر مستحکم حکومت قائم کرنے اور اس کا وقار قائم کرنے کا موقع عطا فرما دے تو اب اگر منافقین اندیشہ ہائے دوردراز کا شکار ہو کر ایمان میں اخلاص پیدا کرنے سے کوتاہی کریں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ لوگ درحقیقت ہر حد سے آگے بڑھ جانے والے لوگ ہیں، اب یہ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں۔ چناچہ جنگ تبوک کے بعد شاید اسی اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو ایسے لوگوں کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا جبکہ اس سے پہلے آپ ﷺ ہمیشہ ان کے ساتھ چشم پوشی کرتے اور درگزر سے کام لیتے تھے۔ اور دوسرا لغوی معنی کے لحاظ سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مسلمان اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہوجانے اور اتنے بڑے انعامات سے سرفراز ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ اس خلافت اور حکومت سے اخلاص کا رشتہ قائم نہ رکھیں بلکہ خلیفہ راشد کیخلاف سازشیں کریں اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ نے حدود کی پاسداری کا علمبردار بنایا تھا، اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کرکے آگے نکل گئے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے ان سے کیے ہیں ان میں کمی آجائے گی۔ چناچہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے جب تک خلفائے راشدین اور ان کی خلافت علی منھاج النبوۃ کے ساتھ وفاداری اور اطاعت کا ثبوت دیا تو اللہ تعالیٰ نے زمین کی طنابیں ان کے لیے کھینچ دیں اور کافروں کے دلوں میں ان کا رعب ڈال دیا۔ جدھر بھی نکلے، کامیابی کے جھنڈے گاڑتے گئے۔ لیکن جب حضرت عثمان غنی ( رض) کے خلاف ایک سازشی گروہ نے حالات کی خرابی کا راستہ اختیار کیا، حتیٰ کہ انھیں شہید کر ڈالا تو پھر اس کے بعد مسلمانوں کو ایک کلمے کے تحت جمع ہونے کا کبھی موقع نہ ملا۔ بغوی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن سلام کا یہ خطبہ نقل کیا ہے جو انھوں نے حضرت عثمان ( رض) کے خلاف ہنگامہ کے وقت دیا تھا۔ خطبہ کے الفاظ یہ ہیں : ” اللہ کے فرشتے تمہارے شہر کے گرد احاطہ کیے ہوئے حفاظت میں اس وقت سے مشغول تھے جب سے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں تشریف فرما ہوئے اور آج تک یہ سلسلہ جاری تھا۔ خدا کی قسم اگر تم نے عثمان کو قتل کردیا تو یہ فرشتے واپس چلے جاویں گے اور پھر کبھی نہ لوٹیں گے۔ خدا کی قسم تم میں سے جو شخص ان کو قتل کردے گا وہ اللہ کے سامنے دست بریدہ حاضر ہوگا اس کے ہاتھ نہ ہوں گے اور سمجھ لو کہ اللہ کی تلوار اب تک میان میں تھی، خدا کی قسم اگر وہ تلوار میان سے نکل آئی تو پھر کبھی میان میں نہ جاوے گی۔ کیونکہ جب کوئی نبی قتل کیا جاتا ہے تو اس کے بدلے میں ستر ہزار آدمی مارے جاتے ہیں اور جب کسی خلیفہ کو قتل کیا جاتا ہے تو 35 ہزار آدمی مارے جاتے ہیں۔ “ (مظہری)
Top