Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 14
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًا١ؕ فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور بیشک ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح کو اِلٰى قَوْمِهٖ : اس کی قوم کی طرف فَلَبِثَ : تو وہ رہے فِيْهِمْ : ان میں اَلْفَ سَنَةٍ : ہزار سال اِلَّا : مگر (کم) خَمْسِيْنَ : پچاس عَامًا : سال فَاَخَذَهُمُ : پھر انہیں آپکڑا الطُّوْفَانُ : طوفان وَهُمْ : اور وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم تھے
اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کے بھیجا اور وہ ان کے اندر پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، پس انھیں طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلاَّ خَمْسِیْنَ عَامًا ط فَاَخَذَھُمُ الطُّوْفَانُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ (العنکبوت : 14) (اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کے بھیجا اور وہ ان کے اندر پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے، پس انھیں طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ ) سابقہ رکوع کا خلاصہ گزشتہ رکوع میں تین باتیں واضح فرمائی گئیں۔ ایک یہ کہ حق و باطل کی کشمکش میں راہ حق کا مسافر بننا ایک بہت بڑی ذمہ داری کو قبول کرنا ہے۔ چناچہ جو لوگ بھی اس راہ پر چلتے ہیں انھیں بہت سے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان آزمائشوں سے گزرے بغیر وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں صادق اور مخلص ہونے کا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ دوسری یہ بات کہ دین کے معاملے میں ہر شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے خود مسئول اور ذمہ دار ہے۔ اسے اپنے ایمان و عمل کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ کوئی دوسرا اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے۔ بہکانے والے کتنے بھی ہوں بہکنے کی سزا خود اسے ملے گی، کسی دوسرے پر اپنے جرم کو ڈالا نہیں جاسکتا۔ تیسری یہ بات کہ جو لوگ راہ حق پر چلنے والے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر یا بہکا کر راہ حق سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ایک خاص حد تک ڈھیل دیتا ہے۔ اگر وہ اس ڈھیل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے طغیان اور تمرد میں بڑھتے چلے جاتے ہیں تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے قانون کی گرفت میں آکر رہتے ہیں۔ اور جب اس کی گرفت آجاتی ہے تو پھر بچ نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ پیشِ نظر رکوع میں انھیں حقائق کو چند انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے مخالفین اور مکذبین کے احوال سے نمایاں کیا گیا ہے تاکہ ان حقائق کے سمجھنے میں کسی طرح کا ابہام باقی نہ رہے۔ سابقہ حقائق پر حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت سے استشہاد پیشِ نظر آیت کریمہ میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی زندگی سے استشہاد کیا گیا ہے۔ ان کی دعوتی زندگی کی تفصیلات مختلف سورتوں میں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں صرف ایک بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف فریضہ رسالت کی ادائیگی کے لیے بھیجا اور آپ ( علیہ السلام) نے ان میں اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے ساڑھے نوسو سال گزارے۔ یعنی اتنا طویل عرصہ اپنی قوم کی تمام تر گمراہیوں اور اذیت رسانیوں کے باوجود مسلسل کام کیا۔ اس سلسلے میں آپ ( علیہ السلام) کو کیسی کچھ صعوبتوں سے واسطہ پڑا ہوگا اور آپ ( علیہ السلام) نے کیسے کیسے اندوہناک حالات کا سامنا کیا ہوگا لیکن آپ نے اتنے طویل عرصے تک کبھی حالات کی شکایت کی نہ کبھی قوم کے بارے میں کوئی حرف شکایت زبان پر لائے۔ بجز آخری دنوں کے جب آپ نے پیغمبرانہ ذکاوت سے محسوس کیا کہ اب اس قوم پر اتمامِ حجت ہوچکا اور ان میں سے جس کسی میں قبولیتِ ایمان کی کوئی رمق باقی تھی وہ اسلام قبول کرچکا اور باقی کسی میں اس کی صلاحیت نہیں۔ اور پھر آپ نے اللہ تعالیٰ سے عذاب بھیجنے کی استدعا کی۔ اس میں مسلمانوں پر یہ بات واضح کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ و دعوت کوئی چند روز کا کام نہیں اور پھر یہ کوئی ایسا سفر نہیں جس میں کوئی شخص ٹھنڈی سڑک سے چلتا ہوا منزل مقصود تک پہنچ جائے۔ یہ تو صعوبتوں سے اٹا ہوا راستہ ہے۔ یہاں تو قدم قدم پر آزمائشیں ہیں اور یہ اتنا طویل راستہ ہے کہ ساڑھے نوسو سال بھی اس میں صرف کیے جاسکتے ہیں۔ تمہیں ابھی چند سال اس سفر میں گزرے ہیں اور تم ابھی سے شکایت کرنے لگے ہو اور اللہ تعالیٰ کے رسول سے دعا کی درخواستیں کرنے لگے ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر آیت کے پہلے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو آپ کی قوم میں رسول بنا کر بھیجا تھا اور آپ نے رسول ہونے کی حیثیت سے ساڑھے نوسو سال اپنی قوم میں قیام فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں ساڑھے نوسو سال کی مدت آپ کی رسالت کی مدت کے طور پر بیان کی گئی ہے۔ آپ کی عمر کی طوالت کے طور پر نہیں۔ تورات کا بیان اس لحاظ سے قرآن کریم سے مختلف ہے۔ تورات میں ہے ” اور طوفان کے بعد نوح ساڑھے تین سو برس اور جیتا رہا اور نوح کی کل عمر ساڑھے نوسو برس کی ہوئی تب اس نے وفات پائی۔ “ (پیدائش باب 9۔ 28۔ 29) بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے۔ اس لحاظ سے بائیبل آپ کی مجموعی عمر ساڑھے نو سو سال قرار دیتی ہے۔ لیکن قرآن کریم ساڑھے نوسو سال کو ان کی نبوت کی عمر قرار دیتا ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ آپ نے نبوت سے پہلے بھی کچھ عمر گزاری ہوگی اور پھر طوفانِ نوح کے بعد بھی آپ کچھ عرصہ تک زندہ رہے ہوں گے۔ اس لحاظ سے آپ کی عمر ایک ہزار سال سے متجاوز ہونی چاہیے۔ بعض لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طویل عمر کو دیکھتے ہوئے شک و شبہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں حالانکہ اس میں دو باتیں بالکل واضح ہیں ایک تو یہ بات کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں عمروں کا اوسط آج کی نسبت بہت زیادہ تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے والد کی عمر سات سو تہتر برس بیان کی جاتی ہے اور ان کے دادا کی عمر نوسو انہتر برس ذکر کی گئی ہے۔ اسی طرح ان کے دوسرے اجداد میں سے کسی کی عمر نوسو باسٹھ برس مذکور ہے اور کسی کی آٹھ سو پچانوے برس۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی یہ عمر اس زمانے کی اوسط عمر کے بالکل مطابق ہے۔ اور یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں زمین پر آبادی بہت کم تھی۔ اور تمدن و معیشت کے وہ مفاسد ابھی ظہور میں نہیں آئے تھے جو اب زندگی کے ہر شعبے پر چھا گئے ہیں۔ کھلی فضا، خالص غذا، حوادث اور تصادم سے محفوظ زندگی، فطری حالت اور سادگی کی وجہ سے جسم میں غیرمعمولی قوت مدافعت جیسے اسباب کی وجہ سے زندگی کے دراز ہونے سے کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طوالتِ عمر ایک استثنائی اور غیرمعمولی واقعہ ہو۔ کیونکہ ہم ہر دور میں یہ دیکھتے ہیں کہ انسانوں کے بنائے ہوئے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلاف معمول حالات و واقعات کی ایک فہرست ملتی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی قادرِ مطلق ذات ہے جو کائنات کے نظام کو چلا رہی ہے اور وہ کبھی کبھی کسی غیرمعمولی بات کے اظہار سے اپنی ذات کے ہونے اور اپنے متصرفِ حقیقی ہونے کا یقین دلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ہمیں طویل عمروں کے لوگ ملتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ نظام ایک لگے بندھے قانون کے تحت نہیں چل رہا بلکہ کوئی چلانے والا اسے چلا رہا ہے۔ جب وہ چاہتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی تبدیلی بھی پیدا کردیتا ہے۔ فَاَخَذَھُمُ الطُّوْفَانُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ ” پس ان کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے۔ “ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی اکثریت نے جب آپ کی صدیوں کی محنت کے باوجود آپ کی تکذیب کردی اور پھر اس تکذیب میں بڑھتے ہی چلے گئے تو آخر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان پر پانی کا طوفان آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی قوم کو بہت طویل مہلت ملی، لیکن جب انھوں نے اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے تکذیب و انکار ہی کو اپنا شیوہ بنائے رکھا تو آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا عذاب آگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح صاحب ایمان لوگ ایمان لانے کے بعد آزمائے جاتے ہیں اسی طرح مخالفین کو بھی ایک خاص حد تک مہلت دی جاتی ہے جب وہ اپنے ظلم و انکار سے باز نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ کی گرفت آتی ہے اور وہ تباہ و برباد کردیے جاتے ہیں۔ اور یہ تباہی اور بربادی اس وقت ان کا مقدر بنتی ہے جب اللہ تعالیٰ کے نبی کی طرف سے تبلیغ و دعوت کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں اور سمجھانے بجھانے کے جتنے طریقے ممکن ہوسکتے ہیں، سب آزما لیے جاتے۔ اور اس طرح سے ان پر اتمامِ حجت ہوجاتا ہے۔ اب وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں سنبھلنے کا موقع نہ دیا گیا۔ یہی بات یہاں بھی فرمائی گئی ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب اس وقت آیا جب وہ پوری طرح اپنے آپ کو ظالم ثابت کرچکے تھے۔
Top