Ruh-ul-Quran - Yaseen : 30
یٰحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ١ۣۚ مَا یَاْتِیْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ
يٰحَسْرَةً : ہائے حسرت عَلَي الْعِبَادِ ڱ : بندوں پر مَا يَاْتِيْهِمْ : نہیں آیا ان کے پاس مِّنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر كَانُوْا : وہ تھے بِهٖ : اس سے يَسْتَهْزِءُوْنَ : ہنسی اڑاتے
افسوس ہے بندوں کے حال پر جو رسول بھی ان کے پاس آیا اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے
یٰحَسْرَۃً عَلَی الْعِبَادِ ج مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ ۔ اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَھْلَـکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّھُمْ اِلَیْھِمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ ۔ وَاِنْ کُلٌّ لَّمَّا جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 30 تا 32) (افسوس ہے بندوں کے حال پر جو رسول بھی ان کے پاس آیا اس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے۔ کیا انھوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کیا، بیشک وہ ان کے پاس کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ بیشک وہ ہمارے ہی حضور میں حاضر کیے جائیں گے۔ ) مکذبینِ رسول پر افسوس انسانی نفسیات کو متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ افسوس ہے ان بندوں پر جو راہ حق پہچاننے کی بجائے ہمیشہ اپنی خواہشات کے اتباع میں نفسانیت کا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔ ان کا بگاڑ جب حد سے گزرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے لیے کوئی نہ کوئی رسول بھیجتا ہے تاکہ یہ لوگ تباہی سے بچ جائیں۔ لیکن یہ لوگ چونکہ حقیقت کی نگاہ سے محروم ہوچکے ہوتے ہیں بجائے رسول کی دعوت کو قبول کرنے اور اس کی عظمت کو پہچاننے کے اس کی تکذیب پر تل جاتے ہیں۔ وہ نہایت خیرخواہی اور ہمدردی سے ان کی بھلائی چاہتا ہے اور یہ نادانوں کی طرح اس کا منہ چڑاتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ آج یہی روش قریش مکہ کی ہے وہ بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں جس راستے پر اس سے پہلے تباہ ہونے والی قومیں چلتی رہی ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کیونکہ یہ روایات سینہ بہ سینہ ان کی قوم میں پھیلی ہوئی ہیں کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کتنی قوموں کو تکذیبِ رسول کی پاداش میں تباہ کیا ہے اور وہ قومیں پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئیں۔ انھوں نے اپنے استہزا کا انجام دیکھ لیا۔ اور یہ بھی بجائے اس سے سبق سیکھنے کے وہی انجام دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان تباہ ہونے والی قوموں کو بھی اپنی دولت و ثروت پر بڑا ناز تھا۔ اور وہ پیغمبر کی باتوں کو ازکاررفتہ سمجھتے تھے۔ لیکن آج وہ کہاں ہیں۔ قریش اور ان جیسے دوسرے لوگ بھی اسی انجام سے دوچار ہو کر وہیں پہنچیں گے جہاں وہ پہنچ چکے ہیں۔ اور پھر ایک روز ان سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ آخری آیت کی نحوی توجیہ وَاِنْ کُلٌّ… الخ۔ اِنْ نافیہ بھی ہوسکتا ہے اور مخففہ بھی۔ لیکن ل کے قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اِنْ مخففہ ہے۔ کُلٌّ کل الخلائق کے معنی میں مبتدا ہے۔ اور جَمِیْعٌ مبتدا کی خبر ہے جو المجموعون کے معنی میں ہے۔ مُحْضَرُوْنَ دوسری خبر ہے۔
Top