Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 39
وَ مَا ذَا عَلَیْهِمْ لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِهِمْ عَلِیْمًا
وَمَاذَا
: اور کیا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
لَوْ اٰمَنُوْا
: اگر وہ ایمان لاتے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یوم آخرت پر
وَاَنْفَقُوْا
: اور وہ خرچ کرتے
مِمَّا
: اس سے جو
رَزَقَھُمُ
: انہیں دیا
اللّٰهُ
: اللہ
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِهِمْ
: ان کو
عَلِيْمًا
: خوب جاننے والا
اور کیا نقصان تھا ان کا اگر ایمان لاتے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور اللہ نے ان کو جو کچھ عطا کررکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے اور اللہ تو ان سے اچھی طرح باخب رہے
وَمَاذَا عَلَیْہِمْ لَواٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَنْفَقُوْامِمَّارَزَقَھُمُ اللّٰہُ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِھِمْ عَلِیْمًا اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ ج وَاِنْ تَـکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْہَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْـہُ اَجْرًا عَظِیْمًا (اور کیا نقصان تھا ان کا اگر ایمان لاتے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور اللہ نے ان کو جو کچھ عطا کررکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے اور اللہ تو ان سے اچھی طرح باخبر ہے اللہ ذرا بھی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا اگر ایک نیکی ہو تو اس کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا فرماتا ہے) (النسآء : 39 تا 40) متکبروں، بخیلوں، تنگ دلوں اور دکھاوے کے لیے خرچ کرنے والوں پر پوری طرح بات کھول دینے اور ان کو آخری تنبیہ کردینے کے بعد اسلوبِ کلام بدل گیا ہے۔ ان لوگوں کو عذاب کی دھمکی اور سرزنش کے بعد بھی اپنی بدنصیبی کا احساس نہیں ہوا اور وہ اپنی حالت بدلنے پر تیار نہیں تو لہجہ بدل کر فرمایا کہ نادانوں تم اس ایک پہلو پر بھی غور کرکے دیکھو کہ ایمان سے محرومی اور انفاق سے کوتاہی نے تمہارے سیرت و کردار میں جو کانٹے بوئے ہیں اور تمہارے باہمی تعلقات میں جو ڈائنا میٹ بچھ گئے ہیں کہ تمہاری سماجی اور معاشرتی زندگی کھیل کھیل ہو کر رہ گئی ہے اور تم خود اپنی پیدا کردہ قیامت کا سامنا کررہے ہو۔ کاش ! تم اپنی اس حالت پر غور کرتے اور تم اپنی حالت کو بدلنے پر آمادہ ہوتے اور اس بےایمانی کے رویے کو ترک کرکے تم ایمان کی روش اختیار کرتے اور اللہ کے راستے میں انفاق کا فیصلہ کرتے تو ذرا سوچو تمہارا کیا بگڑجاتا۔ تم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودی ہے اور خود اپنے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ تم نے ہرگز نہیں سوچا کہ ایمان کے مقابلے میں بےایمانی، یقین کے مقابلے میں بےیقینی، انفاق کے مقابلے میں بخل، آخر تمہیں اور معاشرے کو کیا دے سکتے ہیں۔ اگر تم ایمان لے آتے تمہارے اندر کی بےاطمینانی نکل جاتی، تمہارے معاشرے میں یکسانی اور یکسوئی پیدا ہوتی، تم روشنی کے مسافر ہوتے، تمہیں اپنی منزل کا یقین ہوتا۔ اندازہ کرو ! اس سے تمہاری سوچ اور زندگی کے عمل میں کتنی خوبصورت تبدیلی واقع ہوتی اور پھر تم اگر بخل کی بجائے انفاق کا راستہ اختیار کرتے اور یہ سوچتے کہ میں جو بھی خرچ کررہا ہوں وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کررہا ہوں کیونکہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ کی دین اور اس کی امانت ہے۔ میں نے اگر دولت کے حصول میں محنت کی ہے تو محنت کا جذبہ بھی اسی کی عطا ہے اور اگر میں نے صلاحیت سے کام لیا ہے تو صلاحیت بھی تو اسی کی بخشی ہوئی ہے۔ جن عوامل نے میری دولت بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے ان میں سے کوئی سی چیز بھی اللہ کے علم اور اس کی گرفت سے باہر نہیں۔ جب میں ان احساسات کے ساتھ اس کے راستے میں خرچ کروں گا اور یہ سمجھ کر خرچ کروں گا کہ اللہ میرے ایک ایک عمل سے باخبر ہے اس کا علم بےحد وبے نہایت ہے۔ اس کی نگاہ سے کوئی چیز مخفی نہیں، وہ میری نیت سے بھی واقف ہے، اور اس کا کرم یہ ہے کہ وہ اپنے راستے پر خرچ کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ نوازتا ہے۔ میں اگر ایک پائی خرچ کروں تو وہ نجانے اس کے بدلے میں مجھے کیا کچھ عطا کردے کیونکہ اس کا ارشاد یہ ہے : اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَظْلِمُ مُثْقَالَ ذَرَّۃٍ (اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا) کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔ حق تلفی نہ کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ جتنا کسی نے خرچ کیا ہے اور جتنے اخلاص سے کیا ہے اتنا اسے واپس کردے۔ لیکن اس کے کرم اور فضل کا عالم تو یہ ہے کہ وہ فرماتا ہے : وَاِنْ تَـکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْہَا وَیُؤْتِ مِنْ لَّـدُنْـہُ اَجْرًا عَظِیْمًا (اگر ایک نیکی ہو تو وہ اس کو دوگنا چوگنا کردیتا ہے اور پھر اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے) کسی نیکی پر دس گنا اجر دینا تو اس کا عام معمول ہے۔ لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسے اعمال بھی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بیس لاکھ گنا اجرعطا فرماتے ہیں۔ نیکی میں جیسے جیسے اخلاص بڑھتا جاتا ہے اللہ پر اعتماد اور یقین میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اللہ کی طرف سے نیکی میں اضافہ ہوتاچلا جاتا ہے۔ ہم چونکہ انھیں محض آخرت کی باتیں سمجھتے ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں تو دے گا ہی کیونکہ وہی حقیقت میں دارلجزا ہے۔ لیکن بعض دفعہ وہ دنیا میں بھی اسی طرح عطا کرتا ہے۔ سیالکوٹ کے ایک مخلص اور مخیر دوست جن کا وسیع کاروبا رہے انھوں نے مجھے بتایا کہ میں نے جب اپنا کاروبار شروع کیا تو میں نے اپنے اللہ سے وعدہ کیا کہ یا اللہ ! میں اپنے کاروبار میں سود کا مال شامل نہیں ہونے دوں گا۔ سود پر قرض نہیں لوں گا اپنی فیکٹریوں میں کوئی ناجائز کام نہیں ہونے دوں گا۔ آپ میرے کاروبار میں برکت عطا فرمائیں۔ شریعت کی پابندی کرنا اور حرام مال سے اجتناب کرنا اور حلال طریقوں پر چلنا یہ میری ذمہ داری ہے اور کاروبار میں برکت دینا یہ آپ کی عطا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چند سالوں تک تو اللہ تعالیٰ نے خوب میرے اخلاص کا امتحان لیا اور خوب مجھے جھٹکے دیئے لیکن میں نے جب اپنے وعدے پر استقامت دکھائی اور مسلسل اپنے پروردگار سے مانگتارہا تو آج نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ پروردگار نے مجھے اتنا عطا فرمایا ہے کہ میں کبھی اس حد تک سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ میرا جتنا کاروبار ہے اس میں بینک کا کوئی حصہ نہیں۔ جبکہ بیشتر کاروبار کرنے والے بینکوں کے سودی سرمائے سے کاروبار کرتے ہیں۔ اسی طرح کی سینکڑوں مثالیں آپ کو اپنے گردوپیش میں ملیں گی۔ لیکن ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ ہم اللہ کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے۔ ہم قرآن کریم کو پڑھتے ضرور ہیں لیکن اس کی ہر بات ہمارے دل میں یقین پیدا نہیں کرتی۔ صحابہ میں اور ہم میں یہی فرق ہے کہ وہ جس حکم کو سنتے تھے اس پر یقین لاتے تھے پھر عمل کے لیے کمر بستہ ہوجاتے تھے، بالآخر اپنا سب کچھ اس پر قربان کردیتے تھے۔ حضرت ابوالدحداح ( رض) ایک صحابی ہیں۔ انھوں نے سنا کہ قرآن کریم کی ایک آیت اتری ہے۔ جس میں پروردگار نے فرمایا ہے کہ جو اللہ کو قرض دے گا اللہ اسے کئی گنابڑھا کر واپس کرے گا۔ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، عرض کیا حضور میں نے سنا ہے اللہ نے قرض مانگا ہے اور پھر اس پر اجر کبیر دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک سنا، انھوں نے کہا حضور اپنا ہاتھ بڑھائیے، آپ نے ہاتھ آگے بڑھایاتو صحابی نے حضور کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا : حضور میرے دو باغ ہیں ایک زیادہ قیمتی ہے، اسی میں میری رہائش ہے۔ آپ گواہ رہیں میں نے وہ باغ اپنی رہائش سمیت اللہ کو قرض دے دیا۔ پھر وہاں سے اٹھے اور باغ کے کنارے کھڑے ہو کر اپنی بیوی ام الدحداح کو آواز دی کہ بچوں کو لے کر باہر آجاؤ۔ انھوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ ایسی کیا بات ہے ؟ آپ اندر تشریف کیوں نہیں لارہے ؟ انھوں نے کہا : میں نے یہ باغ اللہ کو قرض دے دیا ہے۔ بیوی بھی صحابیہ تھیں اور رسول پاک کی تربیت یافتہ۔ سن کر کہنے لگیں ابو الدحداح مبارک ہو آپ نے بہت اچھا سودا کیا۔ یہی وہ انفاق ہے جو سچے ایمان کا نتیجہ ہے کیونکہ جب تک اللہ پر ایمان نہ ہو کہ رزق کے خزانے اسی کے ہاتھ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے رزق میں کشادگی پیدا کرتا ہے اور جب چاہتا ہے تنگی پیدا کردیتا ہے۔ وہ چاہے تو غریب کو دولت مند اور بےکس کو تخت وتاج کا مالک بنا دے اور جب چاہے قارون جیسے دولت مند کو اس کے خزانوں سمیت زمین میں غرق کردے۔ اس وقت تک اللہ کے رستے میں خرچ نہیں کیا جاسکتا لیکن ایسا ایمان نصیب ہوجانے کے بعدجب اسے انفاق کے لیے کہا جاتا ہے تو فوراً ایمان اس کے اندر سے بولتا ہے کہ یہ میرا مال و دولت اللہ کی ہی عطا ہے۔ میں جتنا اس کے راستے میں خرچ کروں گا اس کا وعدہ ہے کہ اتنا ہی اس میں اضافہ کرے گا۔ وہ یہ اضافہ دنیا میں بھی کرتا ہے اور آخرت میں بھی کرے گا۔ یہ سوچ اس کے ہاتھ کو رکنے نہیں دیتی۔ اس کے کانوں میں آنحضرت ﷺ کے یہ الفاظ گونجنے لگتے ہیں بلال اللہ کے راستے میں خرچ کر اور اس سے تنگی کا شکوہ نہ کر۔ اور یہ بھی کہ لوگو ! اگر تم اللہ کے راستے میں گن گن کردوگے تو وہ بھی تمہیں گن گن کردے گا، بےحساب دو گے تو وہ بھی بےحساب دے گا۔ اس آیت کا آخری جملہ ایک مومن کی سرخوشی کے لیے ایسا مژدہ جاں فزا ہے جس پر جتنا بھی اظہارِ مسرت کیا جائے تھوڑا ہے۔ ارشاد فرمایا : وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا (وہ اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرماتا ہے) سوال یہ ہے کہ یہ اجر عظیم کیا ہے ؟ لفظی معنی تو ہے بڑا اجر لیکن بڑے اجر یا بڑے معاوضے کا کوئی ایک پیمانہ نہیں۔ اس پیمانے کا دارومدار اس کے کہنے والے پر ہے۔ اگر ایک چھوٹا آدمی یہ کہتا ہے کہ میں تمہیں بہت بڑا معاوضہ دوں گا تو ظاہر کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق دے گا۔ لیکن جب ایک بڑا آدمی کوئی نواب یا بادشاہ کسی سے کہتا ہے کہ ہم تمہیں بڑا اجر عطا کریں گے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس کے ہاں بڑے اجر کا کیا مفہوم ہوگا۔ نواب عبدالرحیم خان خاناں مغلیہ دور کے ایک عظیم نواب گزرے ہیں۔ یہ بادشاہ کے نورتنوں میں سے تھے۔ ان کی حوصلہ مندی اور فیاضی ضرب المثل کی حد تک پہنچ گئی تھی۔ ایک دفعہ دہلی سے آگرہ جانے کے لیے نکلے، امرا، مصاحب اور فوج کا ایک حصہ ساتھ تھا۔ آگرہ دہلی سے پندرہ منزل کے فاصلے پر ہے اور یہ ہر منزل یعنی پندرہ میل پر پڑائو ڈالتے تھے۔ رات وہاں گزارتے اور اگلے دن پھر سفر شروع کردیتے۔ پہلی ہی منزل پر پڑائو ڈالا۔ دربار سجا۔ امرا اور مصاحب اپنی اپنی مسندوں پر فروکش ہوگئے۔ نواب اپنی مسند ِ خاص پر نہایت تمکنت کے ساتھ آکر بیٹھے کہ اچانک ایک درویش بارگاہ کے دروازے پر آکر کھڑا ہوا اور اس نے بلند آواز سے ایک شعر پڑھا۔ منعم بہ کوہ و دشت و بیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت خیمہ زد و بارگاہ ساخت منعم کا معنی تو مال دار اور سخی ہوتا ہے۔ لیکن نواب کوا سوقت بادشاہ کی جانب سے منعم خاں کالقب بھی عطا ہوچکا تھا۔ اس لحاظ سے وہ اور بھی محظوظ ہوئے۔ شعر کا مطلب یہ ہے کہ منعم یعنی ایک بڑا آدمی پہاڑ، جنگل اور صحرا میں بھی مسافر نہیں ہوتا وہ جہاں بھی جاتا ہے خیمہ لگاتا اور دربار سجاتا ہے۔ نواب نہایت خوش ہوا اور اسی وقت اس درویش کو ایک لاکھ روپے دینے کا حکم دیا۔ دوسرے روز اگلی منزل پر دربار لگایا۔ خیمے آراستہ ہوئے، تو پھر وہی درویش آیا اور اس نے دروازے پر کھڑے ہو کر پھر وہی شعر پڑھا۔ نواب نے خوش ہو کر پھر ایک لاکھ روپے دینے کا حکم دیا۔ چار پانچ منزلوں تک یہ درویش آتارہا اور ہر بار یہی شعر پڑھتا اور ایک لاکھ روپیہ انعام حاصل کرکے چلا جاتا۔ لیکن چھٹے دن وہ نہیں آیا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ اتنا انعام آج تک کبھی کسی نے کسی کو نہیں دیا، ایسانہ ہونواب بگڑ کر سارا انعام چھین لے۔ اس لیے زیادہ حرص اچھی نہیں جو میں لے چکا ہوں وہ ہی بہت ہے۔ اس دن نواب نے دیر تک دربار جاری رکھا۔ شام ہوگئی اور وہ درویش نہیں آیا، تو نہایت افسوس سے کہنے لگے کہ درویش کم ظرف نکلا اسے نجانے کس خیال نے روک لیا ہم نے تو پہلے ہی دن پندرہ لاکھ روپیہ الگ رکھنے کا حکم دے دیا تھا تاکہ روزانہ اس درویش کو ایک لاکھ روپیہ دیا جاتا رہے۔ اندازہ کیجیے ! جس انعام کو ایک درویش غیر معمولی اور بہت بڑاسمجھتا ہے وہ نواب کی نگاہوں میں کوئی بڑا انعام نہیں۔ تو اللہ جیسے کریم کے بارے میں کون اندازہ کرسکتا ہے کہ جب وہ کسی کو اجر عظیم عطا فرمائے تو اس اجر کی عظمت کا حال کیا ہوگا۔
Top