Tafseer-e-Saadi - Al-Kahf : 59
وَ تِلْكَ الْقُرٰۤى اَهْلَكْنٰهُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَ جَعَلْنَا لِمَهْلِكِهِمْ مَّوْعِدًا۠   ۧ
وَتِلْكَ : یہ (ان) الْقُرٰٓى : بستیاں اَهْلَكْنٰهُمْ : ہم نے انہیں ہلاک کردیا لَمَّا : جب ظَلَمُوْا : انہوں نے ظلم کیا وَجَعَلْنَا : اور ہم نے مقرر کیا لِمَهْلِكِهِمْ : ان کی تباہی کے لیے مَّوْعِدًا : ایک مقررہ وقت
اور یہ بستیاں (جو ویران پڑی ہیں) جب انہوں نے (کفر سے) ظلم کیا تو ہم نے انکو تباہ کردیا اور انکی تباہی کے لئے ایک وقت مقرر کردیا تھا
آیت 59 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس بندے سے بڑھ کر کوئی ظالم اور اس سے بڑا کوئی مجرم نہیں جسے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ذریععے سے نصیحت کی جائے، اس کے سامنے حق اور باطل، ہدایت اور ضلالت کو واضح کردیا گیا ہو، اسے برے انجام سے ڈرایا گیا اور آخرت کے ثواب کی ترغیب دی گئی ہو اور وہ روگردانی کرے، نصیحت نہ پکڑے، اپنے کر تتوں سے باز نہ آئے اور اپنے ہاتھوں کی کمائی سے انجان بنا رہے اور اللہ عالم الغیوب کو اپنے اوپر نگران نہ سمجھے۔ پس یہ اس روگرداں شخص کے ظلم سے بڑا ظلم ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ کی آیات نہیں پہنچیں اور اس کو ان آیات کے ذریعے سے نصیحت نہیں کی گئی۔۔۔ یہ بھی اگرچہ ظالم ہے مگر وہ پہلا شخص اس سے زیادہ بڑا ظالم ہے کیونکہ علم اور بصیرت رکھتے ہوئے گناہ کرنے والا لاعلمی سے گناہ کرنے والے سے زیادہ بڑا گناہ گار ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی سے اس کے اعراض، اپنے گناہوں کو بھول جانے اور حالت شر پر راضی رہنے کے سبب سے اس کو سزا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے عمل ہے کہ ہدیات کے دروازے اس پر بند ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے قلب پر پردے ڈال دیئے ہیں یعنی مضبوط پردوں نے اس کو آیات الٰہی کے تفقہ سے محروم کر رکھا ہے اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سنتا ہے مگر ان میں ایسا تفقہ حاصل کرنا جو قلب کی گہرائی میں اتر جائے اس کے بس کی بات نہیں۔ (وفی اذانھم وقراً ) ” اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے “ یعنی ان کے کانوں میں گرانی ہے جو ان کو آیات الٰہی کے فائدہ مند سماع سے محروم کردیتی ہے اور اگر وہ اسی حالت میں رہیں تو ان کی ہدیات کا کوئی راستہ نہیں۔ (آیت) ” اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلائیں تو ہرگز ہدیات پر نہ آئیں اس وقت کبھی “ کیونکہ داعی ہدایت کی دعوت پر اسی شخص کے لبیک کہنے کی امید ہوتی ہے جو علم نہیں رکھتا۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے آیات الٰہی کو خوب دیکھا، بھالا پھر اندھے پن کا مظاہرہ کیا، انہوں نے راہ حق کو پہچان لیا مگر اسے چھوڑ دیا اور گمراہی کی راہ پر گامزن ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی یہ سزا دی کہ ان کے دلوں پر تالے ڈال دیئے اور ان پر مہر لگا دی۔۔۔ تو ان لوگوں کی ہدایت کا کوئی راستہ اور کوئی حیلہ نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لئے تخویف و ترہیب ہے جو حق کو پہچان لینے کے بعد اسے ترک کر دے اور یہ کہ اس کے اور حق کے درمیان رکاوٹ کھڑی کردی جائے اور اس کے بعد اس کے لئے کوئی چیز ایسی نہ رہے جو اس کے حق میں اس سے بڑھ کر ڈرانے والی اور اس غلط روی سے اسے روکنے والی ہو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بےپایاں مغفرت اور رحمت کا ذکر کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو بخش دیتا ہے، جو کوئی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے اور اسے اپنی رحمت سے ڈھانپ لیتا ہے اور اسے اپنے احسان میں شامل کرلیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ان کے گناہوں پر گرفت کرے تو ان پر فوراً عذاب بھیج دے مگر وہ حلم والا ہے وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا وہ اپنے بندوں کو مہلت دیتا ہے مہمل نہیں چھوڑتا، جبکہ گناہوں کے آثار کا واقع ہونا ضروری امر ہے اگرچہ اس میں طویل مدت تک تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے فرمایا : (آیت) ” بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ ہے، ہرگز نہیں پائیں گے اس سے ورے سرک جانے کو جگہ “ یعنی ان کے لئے ایک وقت مقررہ ہے جس میں انہیں ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی۔ یہ جزا انہیں ضرور ملے گی اور اس جزا و سزا سے بچنے کی ان کے لئے کوئی گنجائش نہیں۔ اس سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ ہے نہ کوئی جائے فرار۔۔۔ اولین و آخرین میں یہی سنت الٰہی ہے کہ وہ عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا بلکہ وہ انہیں توبہ اور انابت کی طرف بلاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر کے رجوع کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیتا ہے اور ان کو اپنی رحمت کے سائے میں لے کر ان سے عذاب کو ہٹا دیتا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے ظلم اور عناد پر جمے رہیں اور وقت مقررہ آجائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب نازل کردیتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : (آیت) ” اور یہ بستیاں، ہم نے ان کو ہلاک کردیا جب انہوں نے ظلم کیا “ یعنی ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود انکے ظلم کی بنا پر ہم نے انہیں ہلاک کیا۔ (وجعلنا لمھلکم موعداً ) ” اور مقرر کیا تھا ہم نے ان کی ہلاکت کا ایک وعدہ “ یعنی ایک وقت مقرر جس سے وہ آگے ہوئے نہ پیچھے۔
Top