Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 34
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیے اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اٰيٰتٍ : احکام مُّبَيِّنٰتٍ : واضح وَّ مَثَلًا : اور مثالیں مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَمَوْعِظَةً : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور بیشک ہم نے تمہاری طرف روشن آیتیں بھی اتار دی ہیں، اور ان لوگوں کی تمثیل بھی سنا دی ہے جو تم سے پہلے گزرے اور خدا ترسوں کے لئ موعظت بھی
موعظت کا آمادہ یہ اسی طرح کی تنبیہ ہے جس طرح کی تنبیہ اس سورة میں بار بار آئی ہے۔ پیچھے بھی اس کی مثالیں گزر چکی ہیں اور آگے آیت 46 میں بھی اس کی نظیر موجود ہے۔ ان تنبیہات کے بار بار اعادہ کی حکمت کی طرف ہم اس سورة کی پہلی ہی آیت کے تحت اشارہ کر آئے ہیں۔ ومثلاً من الذین حلوا من قبلکم سے اشارہ اس تمثیل کی طرف ہے جو آگے آیت 35 میں آرہی ہے اور جس کی وضاحت آپ کے سامنے انشاء اللہ آئے گی۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف یہ نہایت واضح ہدایات نازل کردی ہیں اور تمہاری حوصلہ افزائی کے لئے ان اسلاف صالحین کی تمثیل بھی پیش کردی ہے جن کے نقش قدم کی تمہیں پیروی کرنی ہے۔ ان کے اندر ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت و موعظت ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہیں۔ رہے وہ لوگ جن کے سینے خوف خدا سے خالی ہیں تو ان کے اوپر کوئی وضاحت و موعظت بھی کارگر نہیں ہوتی۔ وہ اپنا انجام خود دیکھیں گے۔ -6 غلامی کا بالتدریج خاتمہ اس مجموعہ آیات میں جو اہم ہدایات دی گئی ہیں ان کی بقدر ضرورت وضاحت آیات کے تحت ہوچکی ہے۔ البتہ غلامی سے متعلق ہم یہاں ان باتوں کو یکجا کردینا چاہتے ہیں جن کی طرف پیچھے جگہ جگہ ہم اشارہ کرچکے ہیں تاکہ اس سلسلہ میں جو غلط فہمیاں لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں ان کا ازالہ ہو سکے۔ غلامی اسلام کے اپنے نظام کا کوئی جزو نہیں تھی بلکہ اس کو اسلام نے وقت کے بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تحت محض اس لئے گوارا کرلیا تھا کہ اگر بیک گردش قلم اس کے خاتمہ کا اعلان کردیا جاتا تو اس سے دشمن قوموں کو بھی شہ ملتی اور خود اپنے معاشرے کے اندر بھی نہایت سخت قسم کی معاشرتی اور معاشی الجھنیں پیدا ہوجاتیں۔ اس دور میں اول تو جنگی قیدیوں کے مسئلہ کا ایک معروف حل یہی تھا کہ جنگ میں جو قیدی گرفتار ہوں ان کو فاتحسین غلام بنا لیں تانیاً ہر جگہ نخاسوں پر غلاموں اور لونڈیوں کی خریدو فروخت کا کاروبار ہوتا تھا اور ہر ذی استطاعت کے گھر میں ہر سن و سال کی لونڈیاں اور غلام موجود تھے۔ ایسے حالات میں اگر بیک وقت یہ اعلان کردیا جاتا کہ تمام لونڈیاں اور غلام آزاد ہیں تو قطع نظر اس سے کہ اس سے مخالف قوتیں فائدہ اٹھاتیں ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہوتا کہ ان تمام لونڈیوں اور غلاموں کو معاشرے میں کہاں کھپایا جائے ؟ ان میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی تھی جو یہ صلاحیت نہیں رکھتے تھے کہ خود اپنی کفالت کا بار اٹھا سکیں۔ غلامی صورت میں تو ان کی کفالت کی ذمہ داری قانونًا اس کے مالکوں کے اوپر تھی لیکن آزاد ہوجانے کی صورت میں ان کے لئے اس کے سوا کوئی سبیل باقی نہ رہتی کہ بھیک مانگیں اور معاشرے پر ایک بوجھ بنیں۔ بالخصوص لونڈیوں کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ تھا۔ ان کے بےسہارا ہونے میں بہت سے اخلاقی مفاسد کے پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔ بیت المال، ظاہر ہے کہ اتنی بڑی فوج کی کفالت کے بار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ان مصالح کی وجہ سے اسلام نے ان کی آزادی کی ایک ایسی راہ اختیار کی جس سے وہ خطرات بھی پیدا نہیں ہوئے جن کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اور بتدریج تمام ذی صلاحیت غلام اور لونڈیاں آزاد ہو کر اسلامی معاشرہ کے جزو بھی بن گئے۔ یہاں اس مسئلہ کی تمام تفصیلات سے بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہوگی۔ البتہ ہم چند اہم مبادی کی طرف اشارہ کریں گے جن سے آپ کو اندازہ ہو سکے گا کہ اسلام نے غلاموں کو آزادوں کی صف میں لانے کے لئے بالتدریج کیا ہدایات جاری کیں۔ -1 اسلام نے اس سلسلہ میں سب سے پہلاقدم یہ اٹھایا کہ مکی زندگی کے بالکل ابتدائی دور ہی سے فک رقبہ یعنی غلام آزاد کرنے کو ایک بہت بڑی معاشرتی نیکی قرار دیا۔ مکی سورتوں میں فک رقبہ، اور اطعام فقراء کا ذکر بالکل ساتھ ساتھ ہوا ہے اور بعض آیات میں اس کو حصول سعادت کی راہ میں اولین قدم بتایا گیا ہے بالخصوص امراو اغنیار کے لئے۔ -2 نبی ﷺ نے نہایت واضح الفاظ میں غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک کی ہدایت فرمائی بلکہ مالکوں پر ان انسانی حقوق کو شرعی درجہ دے دیا جس سے ان کے معاملہ میں مالکوں کی وہ خود مختاری اور مطلق العنانی ختم ہوگئی جو زمانہ جاہلیت میں ان کو حاصل تھی۔ -2 بعض گناہوں اور کوتاہیوں کی صورت میں غلام آزاد کنے کو کفارہ اور صدقہ ٹھہرا یا گیا۔ -4 تمام ذی صلاحیت لونڈیوں اور غلاموں کے نکاح کردینے کی ہدایت فرمائی گی تاکہ معاشرے کے اندر ان کا اخلاقی و معاشرتی معیار اونچا ہو۔ -5 بیتالمال اور اموال زکوۃ کے مصارف میں ایک مستقل مدفی الرقاب بھی رکھی گی تاکہ غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کی مہم کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچائی جائے۔ -6 زمانہ جاہلیت میں جن مالکوں نے لونڈیوں سے پیشہ کرانے کے لئے چکلے قائم کر رکھے تھے ان کے چکلے زنا کے جرم قرار پا جانے کے بعد ختم ہوگئے اور اگر کسی نے خفیہ طور پر اس کاروبار کو جاری رکھنے کی کوشش کی تو اس کو نہایت عبرت انگیز سزا دی گئی۔ یہاں تک کہ اس قبیل کے بعض مردوں اور عورتوں کو حضور نے رجم بھی کرا دیا۔ -7 لونڈیوں اور غلاموں کے لئے عبد اور امۃ کے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرنے کے بجائے فتی اور فتاۃ کے الفاظ استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی گئی تاکہ اس گروہ سے متعلق لوگوں کے قدیم تصورات میں تبدیلی پیدا ہو۔ -8 اسیران جنگ سے متعلق بھی بالعموم یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ خاص خاص سرغنوں کو تو بیشک قتل کردیا گیا لیکن عام قیدیوں کو فدیہ لے کر یا احساناً چھوڑ دیا گیا۔ -9 آخر میں مکاتبت کو ایک قانونی حیثیت دے دی گی جس کے بعد ہر ذی صلاحیت غلام اور لونڈی کے لئے آزادی کی نہایت کشادہ راہ کھل گئی۔ ان کی امداد و حوصلہ افزائی کے لئے عام لوگوں کو بھی، جیسا کہ اوپر گزرا، ابھاراً گیا اور ان کے لئے بیت المال میں بھی ایک خاص مد رکھی گئی۔ اس قانون نے عملاً غلامی کا خاتمہ کردیا۔ اس کے بعد صرف وہ غلام بچ رہے جو ہاتھ پائوں مارنے کی صلاحیت سے عاری تھے اور ان کے لئے یہی شکل معاشرے کے حق میں بھی اور خود ان کے حق میں بھی بہتر تھی ورنہ معاشرے پر ایک بوجھ بنتے اور گداگری کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے۔ ان تمام باتوں کے دلائل قرآن و حدیث میں نہایت تفصیل سے موجود ہیں۔ میں ان کو پیش کرسکتا ہوں لیکن بحث اپنے حدود سے متجاوز ہوجائے گی اس لئے صرف اشارات پر کفایت کرتا ہوں۔ پچھلے مباحث میں ان میں سے اکثر کے دلائل بیان ہوچکے ہیں اور اگر کسی بات کی دلیل نہیں بیان ہوئی ہے تو ان اشارات کی روشنی میں اہل خود ان کے دلائل نہایت آسانی سے فراہم کرسکتے ہیں۔
Top