Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fahm-ul-Quran - An-Nisaa : 13
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِ
: سے
اسْمِ
: نام
اللّٰهِ
: اللہ
ال
: جو
رَحْمٰنِ
: بہت مہربان
الرَّحِيمِ
: جو رحم کرنے والا
(شروع) اللہ کے نام 2 سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ 3
1 تلاوت سے پہلے تعوذ کا حکم :۔ قرآن کریم کی تلاوت شروع کرنے سے پہلے (اَعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرّجیم) ضرور پڑھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے آیت ( فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ 98 ) 16 ۔ النحل :98) جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کیجئے اور یہ تو ظاہر ہے کہ پناہ کسی نقصان پہنچانے والی چیز یا دشمن سے درکار ہوتی ہے اور ایسی ہستی سے پناہ طلب کی جاتی ہے جو اس نقصان پہنچانے والے دشمن سے زیادہ طاقتور ہو۔ شیطان چونکہ غیر محسوس طور پر انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہذا یہ دعا دراصل قرآن کی تلاوت کے دوران کج فکری سے بچنے اور قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی دعا ہے۔ نیز یہ وہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو سکھائی اور اسے پڑھنے کا حکم دیا۔ (1) فضائل سورة فاتحہ :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن جبرئیل رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے اپنے اوپر ایک زور دار آواز سنی انہوں نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر فرمایا : یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا پھر فرمایا : یہ ایک فرشتہ ہے جو آج سے پہلے زمین پر کبھی نازل نہیں ہوا۔ پھر اس فرشتے نے آپ کو سلام کیا اور دو نوروں کی خوشخبری دی اور کہا : یہ دو نور آپ ہی کو دیے جا رہے ہیں۔ آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے۔ ایک سورة فاتحہ اور دوسرا سورة البقرہ کی آخری دو آیات۔ آپ جب کبھی ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کو طلب کردہ چیز ضرور عطا کی جائے گی (صحیح مسلم۔ کتاب فضائل القرآن۔ باب فضل الفاتحہ) (2) سورة فاتحہ کے مختلف نام :۔ سیدنا ابو سعید بن معلی ؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے مجھے فرمایا : میں تجھے قرآن کی ایک ایسی سورت بتاؤں گا جو قرآن کی سب سورتوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے آیت ( اَلْحَمْدُ لِلّٰہِِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) وہی (سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ ) اور قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا (بخاری : کتاب التفسیر، ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ 24 ) 8 ۔ الانفال :24) نیز تفسیر سورة فاتحہ) (3) سیدنا ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سورة الحمد ہی ام القرآن، ام الکتاب اور دہرائی ہوئی سات آیتیں ہیں۔ (ترمذی : ابواب التفسیر، تفسیر سورة محمد) اس سورة کا سب سے زیادہ مشہور نام الفاتحہ ہے جس کے معنی ہیں کھولنے والی یعنی دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ۔ اس کے متعلق علماء کی دو آرا ہیں : ایک یہ کہ یہ سورة ایک دعا ہے جو بندوں کو سکھائی گئی ہے کہ وہ اس انداز سے اللہ سے ہدایت طلب کیا کریں اور باقی سارا قرآن اس دعا کا جواب ہے۔ ان حضرات کی توجیہ یہ ہے کہ اس سورة کا ایک نام سورة الدعاء بھی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ سورة سارے مضامین قرآن کا اجمالی خلاصہ ہے۔ پھر اس سورة کا خلاصہ آیت ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) ہے۔ ہمارے نزدیک دوسری رائے ہی راجح ہے اور اس کی مندرجہ ذیل دو وجوہ ہیں : 1 ۔ خود رسول اللہ ﷺ نے اس سورة کو قرآن عظیم، ام الکتاب اور ام القرآن فرمایا ہے جس کا مفہوم یہی ہے کہ یہ سورة سارے قرآن کا خلاصہ ہے۔ 2۔ اس سورة کی آیات پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس میں پورے قرآن کا خلاصہ یا اجمالی ذکر کیا گیا ہے تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علمائے تفسیر نے قرآن کے مضامین کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو یہ ہیں : (1) تذکیر بالآء اللہ : یعنی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا بیان جو انسانی زندگی اور اس کی بقا کے لیے ضروری تھیں اور اس میں زمین، آسمان، چاند، سورج اور ہواؤں اور بادلوں وغیرہ کا ذکر سب کچھ آجاتا ہے۔ (2) تذکیر بایام اللہ : یعنی مخلوق کے ساتھ واقعات اور حوادث کا بیان اس میں قصص الانبیاء اور نافرمانی کی بنا پر ہلاک شدہ قوموں کا ذکر شامل ہے۔ (3) تذکیر بالموت و مابعدہ : یعنی موت کے بعد آخرت کے احوال۔ اس میں اللہ کے ہاں باز پرس اور جنت و دوزخ کے سب احوال شامل ہیں۔ (4) علم الاحکام یعنی احکام شریعت : تذکیر بالآء اللہ، تذکیر بایام اللہ اور تذکیر بالموت، سب کا مقصد حقیقی یہی ہے کہ ان کے ذکر سے انسان کو برضاء ورغبت احکام شریعت کی بجا آوری پر آمادہ کیا جائے۔ (5) علم المخاصمہ : یعنی گمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کا رد۔ اب دیکھئے اس سورة کی پہلی تین آیات میں یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے لے کر دوسری بار الرحمن الرحیم تک اللہ تعالیٰ کی ربوبیت عامہ اور رحمت کی وسعت کا ذکر ہے اور یہ تذکیر بالآء اللہ کے ذیل میں آتی ہیں اور چوتھی آیت ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :4) تذکیر بالموت کے ذیل میں۔ پانچویں آیت ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) علم الاحکام کا نچوڑ ہے۔ اور چھٹی آیت اللہ سے دعا اور تعلق باللہ پر مشتمل ہے اور یہ علم الاحکام ہی کے ذیل میں آتی ہے۔ اور ساتویں آیت میں تذکیر بایام اللہ بھی ہے اور علم المخاصمہ بھی۔ اس لحاظ سے یہ سورة فی الواقع قرآن کی اجمالی فہرست ہے اور اس ساری سورة کا خلاصہ آیت ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) ہے۔ یعنی انسان صرف ایک اللہ کی عبادت کرے جس میں کسی قسم کے شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس سورة کا نام الشفاء اور الرقیہ بھی ہے اور ان ناموں کی وجہ تسمیہ درج ذیل حدیث ہے : سیدنا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ جنہوں نے ان کی ضیافت نہ کی۔ اتفاق سے ان کے سردار کو بچھونے کاٹ لیا۔ وہ صحابہ ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم میں سے کسی کے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں ہے۔ مگر چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی اس لیے ہم اس کا معاوضہ لیں گے انہوں نے چند بکریاں (ایک دوسری روایت کے مطابق 30 بکریاں) دینا قبول کیں۔ ایک صحابی (خود ابو سعید ؓ نے سورة فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورة فاتحہ پڑھ کر پھونک مار دیا کرتے۔ چند دنوں میں وہ سردار اچھا ہوگیا۔ (حسب وعدہ) قبیلہ کے لوگ بکریاں لے آئے تو صحابہ ؓ کو تردد ہوا (کہ آیا یہ معاوضہ لینا بھی چاہئے یا نہیں) اور کہنے لگے کہ جب تک ہم نبی ﷺ سے پوچھ نہ لیں یہ بکریاں نہ لینا چاہئیں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورة فاتحہ منتر بھی ہے ؟ وہ بکریاں لے لو اور (ان میں سے) میرا حصہ بھی نکالو اور ابن عباس ؓ کی روایت میں ہے کہ جب صحابہ ؓ مدینہ پہنچے تو کسی نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ اس شخص (ابو سعید خدری ؓ نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے آپ ﷺ نے فرمایا :إن أحق ما أخذتم علیہ أجرا کتاب اللہ (تمہارے اجرت لینے کی سب سے زیادہ مستحق تو کتاب اللہ ہی ہے) (بخاری۔ کتاب الطب والرقی۔ باب الرقی بفاتحۃ الکتاب) اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئیں : 1 ۔ صحابہ ؓ نے اجرت کا مطالبہ صرف اس لیے کیا تھا کہ ان بستی والوں نے ان کی مہمانی سے انکار کردیا تھا۔ بالخصوص ان دنوں میں جبکہ وسائل سفر محدود، سست رفتار اور ہوٹل وغیرہ بھی نہیں ہوتے تھے اور ملکی دستور یہ تھا کہ مہمانی سے انکار کو قتل کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ 2۔ اگر دم جھاڑ کی ضرورت پیش آئے تو صرف کتاب اللہ سے ہی کرنا چاہئے یا کم از کم دم جھاڑ کرنے والا شرکیہ یا مہمل الفاظ نہ پڑھے 3۔ ضرورت مند لوگ دم جھاڑ کی اجرت بھی لے سکتے ہیں۔ رہا علی الاطلاق دم جھاڑ کو ایک مستقل پیشہ بنا لینا یا خانے بنا کر یا مہمل الفاظ سے تعویذ لکھنا۔ انہیں پانی میں گھول کر پلانا۔ گلے میں لٹکانا یا کسی دوسری جگہ باندھنا، ایسے سب کام شرعاً ناجائز ہیں اور اس کی تفصیل سورة القیامۃ میں آئے گی۔ نیز اس سورة کا نام سورة الصلوۃ اور سورة الدعا اور تعلیم المسئلہ (مانگنے کے آداب) بھی ہے۔ قراۃ فاتحہ خلف الامام :۔ چناچہ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی اس کی نماز ناقص، ناقص، ناقص اور ناتمام ہے ابوہریرہ ؓ سے پوچھا گیا : ابوہریرہ ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں ؟ وہ کہنے لگے : فارسی کے بیٹے دل میں (چپکے چپکے) پڑھ لو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز ( سورة فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردیا ہے۔ آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے جو کچھ وہ سوال کرے۔ میرا بندہ (نماز میں) کھڑا ہوتا اور کہتا ہے (آیت اَلْحَمْدُ ﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) الفاتحه "1) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ پھر وہ کہتا ہے۔ (الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) الفاتحه "2) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ پھر وہ کہتا ہے ( مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :4) تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور ( اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ۭ ) 1 ۔ الفاتحة :5) میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور سورت کا باقی حصہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ کچھ ملے گا جو اس نے مانگا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوۃ۔ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔ ترمذی۔ ابواب التفسیر۔ سورة الفاتحۃ) سیدنا عبادہ بن صامت ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا : لاَ صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ (بخاری کتاب الاذان) اور امام بخاری نے تو باب کا نام ہی ان الفاظ سے قائم کیا ہے۔ ( وجوب القرأۃ للامام والمأموم فی الصلوۃ کلھا فی الحضر والسفر وما یجھر فیھا وما یخافت) اس باب کے الفاظ کے عموم سے ہی یہ بات واضح ہے کہ خواہ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا ہو یا مقتدی ہو یا امام ہو، نماز خواہ سری ہو یا جہری ہو ہر صورت میں اور ہر رکعت میں سورة فاتحہ پڑھنا واجب ہے۔ اور ترمذی، ابوداؤد، احمد اور ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ہم سے پوچھا : تم لوگ اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے رہتے ہو ؟ ہم نے کہا : ہاں آپ نے فرمایا : فاتحہ الکتاب کے سوا اور کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ (سبل السلام۔ کتاب الصلوۃ۔ باب صفۃ الصلٰوۃ حدیث نمبر 13) گویا سورة فاتحہ کے کل دس نام معلوم ہوئے۔ سورة الفاتحة، الحمد، سبعا من المثانی، أم القرآن، أم الکتاب، الشفاء، الرقیۃ، الدعاء، تعلیم المسئلۃ اور الصلوۃ اور بعض نے اس سے بھی زیادہ لکھے ہیں۔ اس سورة کا ترتیب نزول کے لحاظ سے پانچواں نمبر ہے۔ گویا یہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی اور یہی پہلی سورت ہے جو پوری کی پوری یکبارگی نازل ہوئی۔ 2 کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة فاتحہ کا جز ہے ؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے زمانہ نزول میں بتایا جاچکا ہے کہ اس میں اقرا یا ابدا محذوف ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمہ میں (شروع) کا لفظ بڑھایا ہے۔ اب یہ بحث باقی رہ جاتی ہے کہ آیا یہ آیت سورة فاتحہ کا جز ہے یا نہیں۔ اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ آیا جہری نمازوں میں امام کو اس کی قراءت بلند آواز سے کرنی چاہئے یا خفی آواز سے ؟ زمانہ نزول :۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سورت کے ختم ہونے کو نہیں پہچانتے تھے جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نازل نہ ہوتی (ابوداؤد۔ کتاب الصلوۃ۔ باب ماجاء من جھر بھا) جس کا مطلب یہ ہوا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورتوں کی تعداد کے برابر (ماسوائے سورة التوبہ) یعنی 113 بار نازل ہوئی۔ سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ پر ایک غنودگی سی طاری ہوئی۔ پھر آپ نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا۔ ہم نے پوچھا : یارسول اللہ ﷺ ! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں ؟ فرمایا : مجھ پر ابھی ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ چناچہ آپ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ کر ( اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ ۭ ) 108 ۔ الکوثر :1) پوری سورت پڑھی۔ (مسلم : کتاب الصلوۃ، باب حجۃ من قال البسملۃ آیۃ من اول کل سورة سواء براء ۃ) کیا بسم اللہ الرحمن الرحیم سورة فاتحہ کا جزو ہے ؟ امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں اس کے عنوان کا ترجمہ یہ ہے سورة توبہ کے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو ہر سورت کا جز کہنے والوں کی دلیل اس دلیل کی رو سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم صرف سورة فاتحہ کا ہی جز نہیں بلکہ ہر سورت کا جز قرار پاتی ہے۔ نیز یہ آیت سورة نمل کی ایک مستقل آیت بھی ہے۔ (27: 30) علاوہ ازیں قرآن کی تصریح کے مطابق سورة فاتحہ کی سات آیات ہیں۔ اور یہ سات آیات تب ہی بنتی ہیں جب بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو سورة فاتحہ کی پہلی آیت شمار کیا جائے۔ یہ سب وجوہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس آیت کی قرات جہری ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں متضاد روایات ملتی ہیں سب سے زیادہ مشہور سیدنا انس ؓ سے مروی وہ حدیث ہے جسے بخاری، مسلم اور نسائی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اور سیدنا ابوبکر ؓ اور سیدنا عمر ؓ (اَلْحَمْدُ اللہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) سے نماز شروع کیا کرتے تھے اور مسلم میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نہ قرات کی ابتدا میں پڑھتے تھے اور نہ آخر میں اب یہ تو واضح ہے کہ مسلم میں مروی جملہ میں فی نفسہ مبالغہ میں زیادتی ہے ورنہ سورة فاتحہ کے آخر میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہے کب ؟ اور جو لوگ بسم اللہ بالجہر پڑھنے کے قائل ہیں وہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ آپ سورة فاتحہ کے بعد جو سورة پڑھتے تھے اس کی ابتدا میں بھی بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے۔ اب اس کے برعکس نسائی کی درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : نعیم مجمر کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ ؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھی۔ پھر ام القرآن پڑھی تاآنکہ وہ (وَلاَالضَّالِیْنَ ) تک پہنچے تو آمین کہا۔ پھر جب بھی سجدہ کرتے یا بیٹھنے کے بعد کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر جب سلام پھیرتے تو کہتے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم سب سے زیادہ میری نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہے (نسائی۔ کتاب الصلوۃ۔ باب قراءۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم) صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ یہ سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے اور یہ اصل کی تائید کرتی ہے جو یہ ہے کہ قرات میں جو حکم فاتحہ کا ہے وہی بسملہ کا ہے۔ خواہ یہ جہراً ہو یا سراً ہو۔ کیونکہ ابوہریرہ ؓ کے اس قول کہ میری نماز تم سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ ہے سے واضح ہے کہ آپ بسملہ کی قرأت فرماتے تھے۔ اگرچہ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ابوہریرہ ؓ کی مراد رسول اللہ ﷺ کی نماز کے اکثر افعال و اقوال سے ہو مگر یہ ظاہر کے خلاف ہے اور کسی صحابی سے یہ بعید ہے کہ اس نے اپنی نماز میں کوئی ایسا نیا کام کیا ہو جسے رسول اللہ ﷺ نے نہ کیا ہو۔ (سبل السلام مطبوعہ دارنشر الکتب الاسلامیہ۔ شیش محل روڈ لاہور۔ الجزء الاول ص 173) نیز صاحب سبل السلام کہتے ہیں کہ : اس مسئلہ میں علماء نے لمبی چوڑی بحث کی ہے اور بعض نامور شخصیات نے کتابیں بھی تالیف کی ہیں۔ اور یہ وضاحت کی ہے کہ سیدنا انس ؓ کی مندرجہ بالا حدیث مضطرب ہے۔ ابن عبدالبر الاستذکار میں کہتے ہیں کہ سیدنا انس ؓ کی تمام روایات کی تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ اس اضطراب کی وجہ سے کسی بھی فقیہ کے لیے اس سے حجت قائم نہیں ہوتی، نہ اس کے لیے جو بسملہ کی قرات کرتے ہیں اور نہ ان کے لیے جو نہیں کرتے۔ اس کے متعلق سیدنا انس ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور بھول جاتا ہوں، لہذا اس میں کوئی حجت نہیں (ایضاً ، ص 172) بعض علماء نہ اس آیت کی جہری قرات کے قائل ہیں اور نہ ہی اس آیت کو سورة فاتحہ کا جز قرار دیتے ہیں اور سات آیات کی تعداد پورا کرنے کے لیے ( صِرَاطَ الَّذِيْنَ ۧ) 1 ۔ الفاتحة :7) کے آگے 5 کا ہندسہ لکھ دیتے ہیں۔ جو کو فیوں کے نزدیک آیت کی علامت ہے لیکن یہ متفق علیہ آیت نہیں ہوتی۔ پھر لطف یہ کہ اس 5 پر لا بھی لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی یہاں وقف ممنوع ہے اور یہ تکلف صرف اس لیے کیا گیا کہ بسم اللہ کو نہ فاتحہ کا جزء سمجھا جائے اور نہ اسے جہری نمازوں میں بلند آواز سے پڑھا جائے۔ مجمع ملک فہد نے عرب ممالک کے لیے جو قرآن طبع کیا ہے ہمارے خیال میں اس میں معتدل رویہ اختیار کیا گیا ہے جو یہ ہے کہ سورة فاتحہ میں تو اس آیت کو سورة کا جزء قرار دیا گیا ہے اور اس پر ایک کا نمبر لکھا گیا ہے۔ (اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ 9 ۧ) 1 ۔ الفاتحة :7) کے آگے کچھ نہیں لکھا۔ البتہ باقی سورتوں میں اس آیت کو سورة کا جز قرار نہیں دیا گیا جس سے از خود یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ سورة فاتحہ سے پہلے یہ آیت جہری نمازوں میں جہر سے پڑھنا بہتر ہے اور دوسری سورتوں میں سر سے۔ 3 رحمن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے اور اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام اور ر ح م سے مشتق ہیں۔ لیکن لفظ رحمان میں رحیم کی نسبت اتنا زیادہ مبالغہ ہے کہ رحمن کا لفظ دوسرے نمبر پر اللہ کے ذاتی نام کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کی صراحت قرآن کی بیشمار آیات میں مذکور ہے۔ مثلاً (الرحمن عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ ۭ ) 55 ۔ الرحمن :2) ( اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى ) 20 ۔ طه :5) ( قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَيًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْـهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا 110۔ ) 17 ۔ الإسراء :110) اس لحاظ سے اللہ کی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی سب صفات پائی جاسکتی ہیں سوائے رحمن کے۔ ایک انسان رحیم، رؤف، کریم وغیرہ سب کچھ ہوسکتا ہے مگر رحمن اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث صحیح میں مذکور ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ دو نام پسند ہیں ایک عبداللہ، دوسرا عبدالرحمن۔ (ترمذی : ابواب الادب، باب ماجاء ما یستحب من الاسماء) اکثر علماء نے رحمن اور رحیم کے فرق کو رحمت کی کیفیت اور کمیت کی کمی بیشی کی مختلف صورتوں سے واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ایک عام قول یہ ہے رحمٰن فی الدنیا رحیم فی الاخرۃ یعنی اللہ تعالیٰ دنیا میں رحمان ہے جو مسلمان، کافر، مشرک سب پر ایک جیسی رحمتیں نازل فرماتا ہے اور رحیم آخرت میں ہے۔ جو صرف ایمانداروں پر رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کی ایک توجیہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صفت رحمانیت کا تقاضا ایسی نعمتیں اور رحمتیں ہیں جو حیات کے وجود اور بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس میں صرف انسان ہی نہیں جملہ جاندار مخلوقات شامل ہیں۔ جیسے سورج، چاند، نور و ظلمت، ہوا، پانی اور زمین کی تخلیق جو زندگی کی جملہ ضروریات کی کفیل ہے نیز ماں کی مامتا اور فطری محبت کے تقاضے بھی اس میں شامل ہیں اور رحیم سے مراد وہ رحمت ہے کہ کسی مصیبت یا ضرورت کے وقت پہنچ کر سہارا دیتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
Top