Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 12
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ١ۘ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِهٖ وَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَضَرَبَ اللّٰهُ : اور بیان کی اللہ نے مَثَلًا : ایک مثال لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوا : جو ایمان لائے امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ : فرعون کی بیوی کی اِذْ قَالَتْ : جب وہ بولی رَبِّ ابْنِ : اے میرے رب۔ بنا لِيْ عِنْدَكَ : میرے لیے اپنے پاس بَيْتًا : ایک گھر فِي الْجَنَّةِ : جنت میں وَنَجِّنِيْ : اور نجات دے مجھ کو مِنْ : سے فِرْعَوْنَ : فرعون (سے) وَعَمَلِهٖ : اور اس کے عمل سے وَنَجِّنِيْ : اور نجات دے مجھ کو مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگوں سے۔ ظالم قوم سے
اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصّہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صُورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصّہ تمہارا ہے جبکہ وصیّت جو انہوں نے کی ہو پوری کردی جائے، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے۔ اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحبِ اولاد ہونے کی صُورت میں اُن کا حصّہ آٹھواں ہوگا،22 بعد اس کے کہ جو وصیّت تم نے کی ہو وہ پُوری کردی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کردیا جائے۔اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہوتو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصّہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کُل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے،23 جبکہ وصیّت جو کی گئی ہو پوری کردی جائے، اور قرض جو میّت نے چھوڑا ہو ادا کردیا جائے، بشرطیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو۔24 یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خُو ہے۔25
سورة النِّسَآء 22 یعنی خواہ ایک بیوی ہو یا کئی بیویاں ہوں، اولاد ہونے کی صورت میں وہ 1/8 کی اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں 1/4 کی حصہ دار ہوں گی اور یہ 1/4 یا 1/8 سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا۔ سورة النِّسَآء 23 باقی 5/6 یا 2/3 جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی اور وارث موجود ہو تو اس کو حصہ ملے گا، ورنہ اس پوری باقی ماندہ ملکیت کے متعلق اس شخص کو وصیت کرنے کا حق ہوگا۔ اس آیت کے متعلق مفسرین کا اجماع ہے کہ اس میں بھائی اور بہنوں سے مراد اخیافی بھائی اور بہن ہیں یعنی جو میت کے ساتھ صرف ماں کی طرف سے رشتہ رکھتے ہوں اور باپ ان کا دوسرا ہو۔ رہے سگے بھائی بہن، اور وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے میت کے ساتھ رشتہ رکھتے ہوں، تو ان کا حکم اسی سورة کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ سورة النِّسَآء 24 وصیت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیت کی جائے جس سے مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں۔ اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حقداروں کو محروم کرنے کے لیے آدمی خواہ مخواہ اپنے اوپر ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو، یا اور کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصود یہ ہو کہ حقدار میراث سے محروم ہوجائیں۔ اس قسم کے ضرار کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں میں سے ہے۔ اور ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام اہل جنت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر مرتے وقت وصیت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کرجاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے۔ یہ ضرار اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے، مگر خاص طور پر کلالہ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جس شخص کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں اس میں عموماً یہ میلان پیدا ہوجاتا ہے کہ اپنی جائداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر جائے اور نسبتاً دور کے رشتہ داروں کو حصہ پانے سے محروم کر دے۔ سورة النِّسَآء 25 یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت علم کا اظہار دو وجوہ سے کیا گیا ہے ایک یہ کہ اگر اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو اللہ کی گرفت سے آدمی نہ بچ سکے گا۔ دوسرے یہ کہ اللہ نے جو حصّے جس طرح مقرر کیے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں کیونکہ بندوں کی مصلحت جس چیز میں ہے اللہ اس کو خود بندوں سے زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اور اللہ کی صفت حلم یعنی اس کی نرم خوئی کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اللہ نے یہ قوانین مقرر کرنے میں سختی نہیں کی ہے کہ بلکہ ایسے قاعدے مقرر کیے ہیں جن میں بندوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت ہے تاکہ وہ مشقت اور تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔
Top