Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 4
وَّ یُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًاۗ
وَّيُنْذِرَ : اور وہ ڈرائے الَّذِيْنَ قَالُوا : وہ جن لوگوں نے کہا اتَّخَذَ : اللہ نے بنا لیا ہے اللّٰهُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا
نیز ان لوگوں کو متنبہ کر دے جنہوں نے کہا اللہ بھی اولاد رکھتا ہے
اس کتاب میں ان لوگوں کو بھی تنبیہ کی گئی ہے جو اللہ کے لئے اولاد قرار دیتے ہیں : 4۔ عیسائیوں کا قول تھا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے یا اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بیٹا بنایا ہے لیکن اس کا یہ کہنا کسی علم پر مبنی نہیں کہ ان کو اللہ کے ہاں اولاد ہونے یا اللہ تعالیٰ کا کسی کو اولاد بنانے کا علم ہے یعنی کوئی عقلی یا نقلی دلیل ان کے پاس ہے بلکہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ محض ان کی عقیدت مندی ہے اور فقط ایک قومی نظریہ ہے جس کے متعلق ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، فلسفیانہ تجسس جس کا مقصد یہ پتہ چلانا ہے کہ اس کائنات میں بظاہر جو کچھ ہم دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے پیچھے کوئی حقت بھی پوشیدہ ہے یا نہیں اور ہے تو وہ کیا ہے ؟ دنیا میں ان سب لوگوں کے لئے جو وحی والہام سے براہ راست حقیقت کا علم نہیں پاتے مذہب کے متعلق رائے قائم کرنے کا واحد ذریعہ ہے کوئی شخص بھی خواہ وہ کسی ملت سے تعلق رکھے ‘ شرک کو اپنائے یا توحید پر جم جائے بہرحال ایک نہ ایک طرح کا فلسفیانہ تجسس کئے بغیر مذہب کے بارے میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا اور پیغمبروں نے جو مذہب پیش کیا ہے اس کی جانچ بھی اگر ہو سکتی ہے تو اسی طرح ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنی بساط بھرفلسفیانہ غور وفکر کرکے اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کرے کہ پر غم ہمیں مظاہر کائنات کے پیچھے جس حقیقت کے مستور ہونے کا پتہ دے رہے ہیں وہ دل کو لگتی ہے یا نہیں ؟ اس تجسس کے صحیح یا غلط ہونے کا تمام ترانحصار طریق تجسس پر ہے تاہم اس کے غلط ہونے سے رائے غلط اور صحیح ہونے سے رائے صحیح قائم ہوگی ، اب ذرا جائزہ لے کر دیکھئے کہ دنیا میں مختلف گروہوں نے اس تجسس کے لئے کون کون سے طریقے اختیار کئے ہیں تو معلوم ہوجائے گا کہ مشرکین کے خالص وہم پر اپنی تلاش کی بنیاد رکھی ہے ، اشرافیوں اور جو گیوں نے اگرچہ مراقبہ کا ڈھانگ رچایا ہے اور دعوی کیا ہے کہ ہم ظاہر کے پیچھے جھانک کر باطن کا مشاہدہ کرلیتے ہیں ، لیکن فی الواقع انہوں نے اپنی اس سراغ رسانی کی بنا گمان پر رکھی ہے ، وہ مراقبہ دراصل اپنے گمان کا کرتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نظر آتا ہے اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ گمان سے جو خیال انہوں نے قائم کرلیا ہے اس پر تخیل کو جما دینے اور پھر اس پر ذہن کا دباؤ ڈالنے سے ان کو وہی خیال چلتا پھرتا نظر آنے لگتا ہے اور اس پر یہ انحصار کرلیتے ہیں ، اصطلاحی فلسفیوں نے قیاس کو بنائے تحقیق بنایا ہے جو اصل میں تو گمان ہے لیکن اس گمان کے لنگڑے پن کو محسوس کرکے انہوں نے منطقی استدلال اور مصنوعی تعقل کی بیساکھیوں پر اسے چلانے کی کوشش کی ہے اور اس کا نام انہوں نے ” قیاس “ رکھ دیا ہے ۔ سائنس دانوں نے اگرچہ سائنس کے دائرے میں تحقیقات کے لئے علمی طریقہ اختیار کیا ہے مگر ما بعد الطبعیات کے حدود میں قدم رکھتے ہیں وہ بھی علمی طریقے کو چھوڑ کر قیاس و گمان اور اندازے اور تخمینے کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔ پھر ان سب گروہوں کے ادہام و گمان کو کسی نہ کسی طرح تعصب کی بیماری بھی لگ گئی جس نے انہیں دوسرے کی بات نہ سننے اور اپنی راہ پر مڑنے اور مڑ جانے کے بعد مڑے رہنے پر مجبور کردیا ۔ قرآن کریم اس طریق تجسس کو بنیادی طور پر غلط قرار دیتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ تم لوگوں کی گمراہی کا اصل سبب یہی ہے کہ تم تلاش حقیقت کی بنا ‘ گمان اور قیاس آرائی پر رکھتے ہو اور پھر تعجب کی وجہ سے کسی کی معقول بات سننے کے لئے بھی آمادہ نہیں ہوتے اس دہری غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ تمہارے لئے خود حقیقت کو پالینا تو ناممکن تھا ہی انبیاء کرام کے پیش کردہ دین کو جانچ کر صحیح رائے پر پہنچنا بھی غیر ممکن ہوگیا ۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم فلسفیانہ تحقیق کے لئے صحیح علمی و عقلی طریقہ بتاتا ہے کہ پہلے تم حقیقت کے متعلق ان لوگوں کا بیان کھلے کانوں سے بلاتعصب سنو جو دعوی کرتے ہیں کہ ہم قیاس و گمان یا مراقبہ واستدراج کی بنا پر نہیں بلکہ ” علم “ کی بنا پر تمہیں بتا رہے ہیں کہ حقیقت یہ ہے پھر کائنات میں جو آثار یعنی نشانات تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آتے ہیں ان پر غور کرو ‘ انکی شہادتوں کو مرتب کرکے دیکھو اور تلاش کرتے جاؤ کہ اس ظاہر کے پیچھے حقیقت کی نشاندہی یہ لوگ کر رہے ہیں اس کی طرف اشارہ کرنے والی یہ علامات تم کو اس ظاہر میں ملتی ہیں یا نہیں ؟ اگر ایسی علامات نظر آئیں اور انکے اشارے بھی واضح ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ تم خواہ مخواہ ان لوگوں کو جھٹلاؤ جن کا بیان آثار کی شہادتوں کے مطابق پایا جا رہا ہے ۔ یہی طریقہ فلسفہ اسلام کی بنیاد ہے جسے چھوڑ کر افسوس ہے کہ مسلمان فلاسفہ بھی افلاطون اور ارسطو کے نقش قدم پر چل پڑے ۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ نہ صرف اس طریق کی تلقین کی گئی ہے بلکہ خود آثار کائنات کو پیش کر کے ان سے نتیجہ نکالنے اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی گویا ترتیب دی گئی ہے کہ سوچنے اور تلاش کرنے کا یہ ڈھنگ ذہنوں میں راسخ ہوجائے ، چناچہ سورة یونس کی آیت 67 میں دو آثار کی طرف توجہ دلائی ہے جہاں فرمایا گیا ہے کہ ” وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے رات بنائی تاکہ تم سکون پکڑو اور دن کو روشن بنایا ‘ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو کھلے کانوں پیغمبر کی بات سنتے ہیں ۔ “ یہ انقلاب لیل ونہار دراصل سورج اور زمین کی نسبتوں میں انتہائی باضابطہ تغیر کی وجہ سے رونما ہوتا ہے ، یہ ایک عالم گیر ناظم اور ساری کائنات پر غالب اقتدار رکھنے والے حاکم کے وجود کی صریح علامت ہے ، اس میں صریح حکمت اور مقصدیت بھی نظر آتی ہے کیونکہ تمام موجودات زمین کی بیشمار مصلحتیں اس گردش لیل ونہار کے ساتھ وابستہ ہیں اس میں صریح ربوبیت اور پروردگاری کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں کیونکہ اس سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ جس نے زمین پر یہ موجودات پیدا کی ہیں وہ خود ہی ان کے وجود کی ضروریات بھی فراہم کرتا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ عالمگیر ناظم ایک ہے اور یہ بھی کہ وہ کوئی کھلنڈرا نہیں بلکہ حکیم ہے اور بامقصد کام کرتا ہے اور یہ بھی کہ وہی محسن اور مربی ہونے کی حیثیت سے عبادت کا مستحق ہے اور یہ بھی گردش لیل ونہار کے تحت جو کوئی بھی ہے وہ رب نہیں مربوب ہے ‘ آقا نہیں غلام ہے ، ان آثاری شہادتوں کے مقابلہ میں مشرکین نے گمان و قیاس سے جو مذہب ایجاد کئے وہ آخر کس طرح صحیح ہو سکتے ہیں ؟
Top