Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا لے
حقیقی بھلائی وہی ہے جو دنیا و آخرت کے لئے ہو : 351: ہاں ! ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو اپنے جذبہ نوع پرستی کی وجہ سے تمام دنیا کی فلاح و بہبود کا اپنے آپ کو ذمہ دار گردانتا ہے ۔ جس کی اعلیٰ ترین غرض یہی ہے کہ ہر انسان صرف الٰہ واحد کا غلام ہوجائے باقی سب کی غلامی کی زنجیریں کٹ جائیں اور کرہ ارض عدل و انصاف سے معمور ہوجائے ۔ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام دنیا و آخرت پر حاوی ہیں اس لئے اس کی دعا یہی تھی کہ : رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ 00201 اے ہمارے رب ! ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا لے۔ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا : وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَةِ نُؤْتِهٖ مِنْهَا 1ؕ وَ سَنَجْزِی الشّٰكِرِیْنَ 0014 (آل عمران 3 : 145) ” اور جو شخص آخرت کے ثواب پر نظر رکھتا ہے اسے آخرت کا ثواب ملے گا ہم نعمت کے شکر گزاروں کو ان کے نیک عمل کا اجر ضرور دیں گے۔ “ ” کچھ لوگ ایسے بھی ہیں “ یہ اشارہ انسانیت کے پسندیدہ طبقہ یعنی اہل ایمان کی جانب ہے۔ مؤمنین کی دعائیں ، مناجاتیں اور آرزوئیں دنیا اور آخرت دونوں کی فلاح و بہود کی جامع ہوتی ہیں دنیا میں ” حسنہ “ تو فیق خیر ہوئی اور آخرت میں حسنہ ثمرہ خیر۔ فرمایا الٰہی جامع و ہمہ گیر دعا کی نظیر سے ادیان وملل کے صحیفے بالکل خالی ہیں۔ پیارے رسول اللہ ﷺ اس دعا کی کثرت رکھتے تھے (بخاری و مسلم عن انس ؓ مال ، اولاد ، صحت ، اطمینان وغیرہ جو چیزیں بھی تحصیل خیر میں معین ہو سکتی ہیں خواہ بظاہر کیسی ہی دنیوی اور مادی ہوں سب مؤمن کا مقصود و مطلوب بن سکتی ہیں البتہ خود دنیا ہرگز مؤمن کا مدعا اور مقصود نہیں بن سکتی۔ آیت کی ترکیب خوب نظر میں رہے۔ ” اٰتِنَا “ کا مفعول صرف حسنہ ہے یعنی جس چیر کی طلب و تمنا کی جا رہی ہے وہ حسنہ یا بہتری ہے۔ ” فِی الدُّنْیَا وَّ فِی الْاٰخِرَةِ “ ظرف یا محل ترکیب میں یہ مفعول یا معنی کے لحاظ سے مقصود کسی طرح نہیں ہو سکتے۔ مراد محض یہ ہے کہ ہمیں تو آپ کے دربار سے صرف بھلائی یا بہتری درکار ہے۔ دنیا میں ہو تو بھی اور آخرت میں ہو تو بھی۔ مزید یہ کہ دنیا میں ہمیں اعمال خیر عنایت ہوں اور آخرت میں ہمیں ثمرات خیر۔
Top