Urwatul-Wusqaa - Yaseen : 39
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ
وَالْقَمَرَ : اور چاند قَدَّرْنٰهُ : ہم نے مقرر کیں اس کو مَنَازِلَ : منزلیں حَتّٰى : یہاں تک کہ عَادَ : ہوجاتا ہے كَالْعُرْجُوْنِ : کھجور کی شاخ کی طرح الْقَدِيْمِ : پرانی
اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں یہاں تک کہ (اس کی حالت بدلتے ہوئے) کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہوجاتی ہے
چاند کا گھٹنا بڑھنا بھی اور ان سیاروں کے ساتھ گردش میں ہونا بھی نشانات الہی میں ہے : 39۔ جب سے یہ نظام قائم ہے اس وقت سے چاند کے لئے 29 یا 30 منزلیں ہر مہینے میں قائم ہیں اور اسی طرح ہر روز اس کی گردش بدلتی رہتی ہے ۔ ایک وہ وقت ہوتا ہے کہ وہ ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے اور پھر چودہ کو وہ کامل بدر ہو کر چمکنے لگتا ہے اور پھر اس کے بعد کم ہونا شروع ہوجاتا ہے حتی کہ آخر کار اپنی اسی ہلالی شکل میں چلا جاتا ہے اس کا یہ کم وبیش ہونا محض دکھائی دینے کے باعث ہے ورنہ وہ فی نفسہ کم وبیش نہیں ہوتا اس کی راتیں اس طرح مقرر کی گئی ہیں کہ کبھی ان میں کمی بیشی ممکن نہیں ہوتی ‘ چاند کے لحاظ سے ایک سال کو 355 دن طے ہوچکے ہیں اور سورج کے لحاظ سے 365 دن کا سال گنا جاتا ہے کبھی ممکن نہیں کہ سورج چاند کو پکڑ لے گویا چاند کا ایک اپنا مدار ہے اور سورج کا اپنا مستقر سورج کے طلوع و غروب کے اوقات اپنے ہیں اور چاند کے اپنے اور جو طریقہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام نے ان کے لئے مقرر کردیا ہے اس سے آگے یا پیچھے یا کم یا زیادہ اوپر یا نیچے ہونا اس کے اختیار کی چیز نہیں ہے ۔ غور کرو کہ جب چاند دکھائی دینے میں کم ہونے لگتا ہے تو کم ہوتے ہوتے اس قدر کم ہوجاتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ کھجور کی ایک سوکھی ہوئی شاخ ہے کہ وہ سوکھ کر ٹیڑھی ہوجاتی ہے اور یہ کہ اس کا اس طرح کم ہونا اور ٹیڑھا ہونا خواہ مخواہ نہیں ہے بلکہ اس میں ہماری زندگی کے اتنے فوائد پنہاں ہیں کہ اگر ان کو شمار کرنے لگیں تو شمار کرنا مشکل ہوجائے بلکہ صرف اس کے ایک فائدہ پر ہی نظر ڈالی جائے تو اس کے فوائد شمار نہیں ہو سکتے وہ یہ کہ اس کی روشنی کو اللہ تعالیٰ نے ٹھنڈا کردیا اگر اس کی روشنی بھی سورج کی طرح گرم ہوتی یا یہ چاند ہونے کی بجائے رات کا سورج ہوتا تو تم کو ساری چیزوں کے بھاؤ معلوم ہوجاتے اور راتوں کا یہ چین کبھی نصیب نہ ہوتا ۔
Top