Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 28
یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْكُمْ١ۚ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّخَفِّفَ : ہلکا کردے عَنْكُمْ : تم سے وَخُلِقَ : اور پیدا کیا گیا الْاِنْسَانُ : انسان ضَعِيْفًا : کمزور
اللہ چاہتا ہے تمہارے لیے نرمی اور آسانی ہو اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے
انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے اور اس کی کمزوری کیا ہے ؟ یہی کہ وہ مجموعہ اضداد ہے : 64: انسان چونکہ کمزور پیدا کیا گیا ہے اور اس کمزوری کے باعث وہ اس گورکھ دھندہ میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ میں بڑا طاقتور ہوں کہ میں نے یہ کیا اور میں نے وہ کیا اور اس یہ وہ میں ان مخفی راہوں کو وہ تلاش نہیں کر پاتا جو اس کی اصل کامیابی کی راہیں ہیں اس لئے اس بتانے اور سمجھانے کے لئے سلسلہ ہدایت قائم کیا گیا اور ان تین آیتوں میں دراصل وہ سلسلہ ہدایت ہی اس کو سمجھایا گیا ہے اور اس طرح اس کو تین باتیں تفہیم کرانے کی کوشش کی گئی ہے اول یہ کہ نزول شریعت کوئی نئی بات نہیں پہلے لوگوں پر بھی شرائع نازل ہوتی رہیں اور وہ سب ایک ہی تھیں وہ کبھی مختلف نہ ہوئیں کہ ان کے اصول ایک ہی منبع سے نکلے تھے۔ اور اس طرح ایک سچے کا حال مختلف نہیں ہو سکتا۔ دوسری بات یہ کہا اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہدایت و شریعت نہ ہوگی تو لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کریں گے اور اس طرح اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماریں گے۔ تیسری یہ کہ نزول شریعت اس لئے ضروری تھا کہ انسان ہدایت کی راہوں کی صرف اپنی کوشش سے حاصل کرنے سے عاجز ہے جتنی دیر میں اس اس کو ایک غلط راہ چلنے کا تجربہ ہوگا اتنی دیر میں خود بوجہ اپنی غلطی کے غلط راہ پر چل کر ہلاک ہوچکا ہوگا اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود شرائع نازل کر کے انسان کے اس بوجھ کو کافی حد تک ہلکا کردیا ہے۔ اے کاش کہ انسان بھی اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ قانون الٰہی ہے کہ اللہ نے انسانی کو پیدا کر کے اس کے ذمہ کچھ ذمہ داریاں ڈال دی ہیں اور جب تک وہ ان اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتا اس وقت تک قانون الٰہی حرکت میں نہیں آتا۔ دیکھو انسان کو پیدا کیا اور اس کی نسل کو آگے بڑھانے کے لئے ایک قانون بنا دیا اور یہ قانون اس نے صرف اور صرف اپنی مرضی و اختیار سے بنایا کسی کے دباؤ میں آکر نہیں اور پھر اس قانون کا اعلان بھی خود ہی فرما دیا۔ وہ قانون کیا ہے ؟ فرمایا افرائتم ما تھنون تم نے دیکھا کہ امنا تمہارے ذمہ ہے لیکن تخلیق تمہارے ذمہ کی بات نہیں وہ ہمارے یعنی اللہ کے ذمہ ہے۔ فرمایا جب تک تم اپنے ذمہ کی بات پوری نہیں کرو گے ہمارا قانون اپنی ذمہ داری کے لئے کبھی کھڑا نہیں ہوگا۔ کیوں ؟ اس لے کہ ہم قانون کے خلاف نہیں کرتے۔ سورۃ الواقعہ میں اس طرح کی چند چیزیں اللہ نے اور بھی سمجھائی ہیں اور مطلب سب کا ایک ہی ہے کہ قانون الٰہی یہ ہے کہ تم اپنے ذمجہ کا کام کرو اور یہی شریعت کا وہ بوجھ ہے جو انسان پر رکھا گیا ہے اور اس پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ اس کو برداشت کرتے ہوئے اپنی منزل پر رواں دواں رہے گا تو تیرے لئے کامیابی کی راہیں کھلتی جائیں گی جو تیری دنیا کو بھی سنواریں گی اور تیری آخرت کو بھی بنائیں گی۔ لیکن بد قسمتی سے اس کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا اور ان کو پورا کرنے میں ہمیشہ کوتاہی کرتا ہے اور موہوم طریقہ سے اللہ کی ذمہ داریاں پوری ہونے کی امید پر طرح طرح کے عقائد گھڑتا اور پھر ان پر سختی سے کار بند ہوجاتا ہتے اس طرح گویا وہ خود ہی اپنا خدا گھڑتا ہے اور خود ہی اس کی پرستش شروع کردیتا ہے اور پھر اس ادھیڑ بن کا نام اس نے مذہب رکھ دیا ہے اور 4 جتنا اس پر پختہ ہوتا ہے اتنا ہی وہ اصل راہ سے دور ہٹتا جاتا ہے۔ یہود کی تاریخ تمہارے سامنے ہے۔ عیسائیوں کی تاریخ تمہارے پاس موجود اور آج عالم اسلام کے مسلمانوں کے عقائد و نظریات جو ان کے ہاں رواج پا گئے ہیں وہ تمہارے سامنے ہیں ایک ایک پر گور کرتے جاؤ بات تم پر روشن ہوتی جائے گی۔ پچھلی امتوں نے ہدایت الٰہی سے منہ موڑ کر اپنی ہی تخلیق کردہ باتوں کو مذہب کے نام سے پیش کیا اور وہی کچھ آج کرتے چلے جا رہے ہیں۔ آج جتنی مذہبی جماعیتیں ہم میں موجود ہیں ان میں کون ہے جو اسلام کا نام نہیں لیتا ؟ لیکن وہ اسلام تو ایک عرصہ سے دفتین میں بند ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے سینہ اقدس میں نازل ہوا تھا۔ اے اللہ ! اے ہمارے رب ! ہم سب مسلمانوں کو دین اسلام کی سمجھ کی توفیق عطا فرما اور دین اسلام کے احکام پر مضبوطی سے چلنے اور قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔
Top