Ashraf-ul-Hawashi - Al-Maaida : 39
قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِیْثِ١ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۠   ۧ
قُلْ : کہدیجئے لَّا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْخَبِيْثُ : ناپاک وَالطَّيِّبُ : اور پاک وَلَوْ : خواہ اَعْجَبَكَ : تمہیں اچھی لگے كَثْرَةُ : کثرت الْخَبِيْثِ : ناپاک فَاتَّقُوا : سو ڈرو اللّٰهَ : اللہ يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
پھر جو کوئی قصور کے بعد یعنی چوری کر کے تو بہ کرلے اور چھے کام کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے4
4 یہاں ظلم سے مراد مسرقہ چوری ہے یعنی جس نے چوری کے بعد توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلی اللہ تعالیٰ ان کا گناہ معاف فرامائے گا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ توبہ کرلینے سے چوری کی حد اس سے ساقط ہوجائے گی۔ نبی ﷺ کی خدمت میں چورتوبہ کرتے ہوئے آتے لیکن آپ ﷺ ان پر حد جاری فرماتے دار قطنی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ ایک چورکا ہاتھ کٹوایا اور پھر اس سے فرمایا تب الی الہ یعنی توبہ کرو اللہ تعالیٰ تمہارا قصور معاف فرمائے ( از فتح القدیر ( یہ باکل صحیح ہے کہ حد دو کفارہ میں محض ان کی حیثیت زواجر کی نہیں ہو ہے مگر ساتھ ہی توبہ کی بھی ضرورت ہے۔ (ماخوذ از قرطبی)
Top