Urwatul-Wusqaa - At-Talaaq : 7
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اَيَّامًا : چند دن مَّعْدُوْدٰتٍ : گنتی کے فَمَنْ : پس جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے مَّرِيْضًا : بیمار اَوْ : یا عَلٰي : پر سَفَرٍ : سفر فَعِدَّةٌ : تو گنتی مِّنْ : سے اَ يَّامٍ اُخَرَ : دوسرے (بعد کے) دن وَعَلَي : اور پر الَّذِيْنَ : جو لوگ يُطِيْقُوْنَهٗ : طاقت رکھتے ہیں فِدْيَةٌ : بدلہ طَعَامُ : کھانا مِسْكِيْنٍ : نادار فَمَنْ : پس جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَهُوَ : تو وہ خَيْرٌ لَّهٗ : بہتر اس کے لیے وَاَنْ : اور اگر تَصُوْمُوْا : تم روزہ رکھو خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس کے رزق میں تنگی ہو اس کو چاہیے کہ جتنا اللہ نے دیا ہے اس میں سے (بچہ کی نگہداشت پر) خرچ کرے ، اللہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس قدر جتنا اس کو دیا ہے اللہ عنقریب تنگی کے بعد (اس کیلئے) فراخی فرما دے گا
یہ خرچ کرنا صاحب وسعت اور صاحب تنگی دونوں کی حالت کے پیش نظر مناسب ہوگا 7 ؎ معاشرہ کے اندر تمام لوگ ایک جیسے حالات نہیں رکھتے بعض کو اللہ نے بہت مال دیا ہوتا ہے اور وہ اپنی وسعت کے مطابق خرچ بھی کرتے ہیں اور بعض تنگ دست ہوتے ہیں ان کی گھریلو گزر بسر میں اتنی وسعت نہیں ہوتی اس لیے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ” صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے اور جس کے رزق میں تنگی ہو اس کو چاہیے کہ جتنا اس کو اللہ نے دیا ہے اس میں سے اپنی حیثیت کے مطابق بچہ کی نگہداشت پر خرچ کرے “ یہ بات بطور نصیحت کی جا رہی ہے اور اس نصیحت کے مطابق قاضی یا جج کو حق ہے کہ اگر فیصلہ اس کے پاس چلا جائے تو وہ اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کی دودھ پلائی کا معاوضہ مقرر کر دے اور اس فیصلہ میں بچہ کے باپ کی حیثیت کے پیش نظر بچہ کا خرچ مقرر کرے اور کسی فریق پر ظلم و زیادتی نہ کرے۔ نہ تو اتنا کم کہ اس سے بچہ کی پرورش ممکن ہی نہ ہو اور نہ اتنا زیادہ کہ بچہ کا باپ ادا ہی نہ کرسکے۔ اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی یہ ہدایت ہونی چاہئے کہ ” اللہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس قدر جتنا اس کو دیا ہے “ اور اس سے معاشرہ کے لوگوں کو سب کچھ معلوم ہی ہوتا ہے کہ اس کی حالت کیا ہے اور کیا نہیں ہے ؟ اس لیے قاضی اگر چاہے تو اس بات کی تحقیق کرسکتا ہے ۔ اس کے بعد جس کو کم دیا گیا اس کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ” اللہ عنقریب تنگی کے بعد اس کے لیے فراخی فرما دے گا ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو تنگی اور غربت کا سامنا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بعید نہیں ہے کہ وہ تمہیں بہت جلد خوشحال کر دے کہ یہ ان لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔
Top