Al-Qurtubi - At-Talaaq : 7
لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ١ؕ وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُ١ؕ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَا١ؕ سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠
لِيُنْفِقْ : تاکہ خرچ کرے ذُوْ سَعَةٍ : وسعت والا مِّنْ سَعَتِهٖ : اپنی وسعت میں سے وَمَنْ قُدِرَ : اور جو کوئی تنگ کیا گیا عَلَيْهِ : اس پر رِزْقُهٗ : اس کا رزق فَلْيُنْفِقْ : پس چاہیے کہ خرچ کرے مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ : اس میں سے جو عطا کیا اس کو اللہ نے لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ : نہیں تکلیف دیتا اللہ نَفْسًا : کسی شخص کو اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا : مگر جتنا دیا اس نے اس کو سَيَجْعَلُ اللّٰهُ : عنقریب کردے گا اللہ بَعْدَ عُسْرٍ : تنگی کے بعد يُّسْرًا : آسانی
صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس کے رزق میں تنگی ہو وہ جتنا خدا نے اس کو دیا ہے اس کے موافق خرچ کرے خدا کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اسی کے مطابق جو اس کو دیا ہے اور خدا عنقریب تنگی کے بعد کشائش بخشے گا۔
اس میں چار مسائل ہیں : نفقہ میں وسعت کا خیال رکھنا مسئلہ نمبر 1 ۔ لینفق یعنی خاوند اپنی بیوی اور چھوٹی اولاد پر اپنی وسعت کے مطابق یہاں تک کہ جب اس کے پاس فراوانی ہو تو ان پر وافر خرچ کرے۔ جو آدمی فقیر ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے۔ نفقہ کا اندازہ لگایا جائے گا جیسی خرچ کرنے والے کی حالت ہوگی اور جس قدر اس بیوی اور بچے کی ضرورت ہوگی ان کی زندگی کے معمول کے مطابق قیاس کرلیا جائے گا۔ مفتی بیوی اور بچے کی ضرورت کو ملاحظہ کرے گا، پھر خاوند اور والد کی حالت کو دیکھے گا، اگر اس کی حالت اسے برداشت کرتی ہو تو وہ اسے نافذ کر دے گا۔ اگر خرچ کرنے والے کی حالت جس پر خرچ کیا جانا ہے، اس کی حاجت سے کم ہو تو اسے اس کی برداشت کی طرف پھیر دیا جائے گا۔ امام شافعی اور اس کے اصحاب نے فرمایا : نفقہ معین ہے اس میں حاکم اور مفتی کے اجتہاد کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس میں صرف خاوند کی حالت کا اعتبار ہے۔ وہ خوشحال ہو یا تنگ دست ہو، عورت کی حالت اور ضرورت کا اعتبار نہیں ہوگا۔ علماء نے کہا : خلیفہ کی بیٹی کی وہی ضرورت ہے جو چوکیدار کی بیٹی کی ضرورت ہے۔ اگر خاوند خوشحال ہوگا تو اس پر دو مد لازم ہوں گے، اگر وہ درمیانہ ہو تو ایک مد اور اس کا نصف لازم ہوگا، اگر تنگ دست ہو تو صرف ایک مد لازم ہوگا۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے : لینفق ذوسعۃ من سعتہ۔ اعتبار خاوند کا کیا گیا ہے خوشحالی میں بھی اور تنگ دستی میں بھی عورت کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ عورت کی ضرورت کا اعتبار کرنا اس لئے ممکن نہیں کیونکہ حاکم یا کوئی اور اسے نہیں جان سکتا تو یہ چیز خصوصیت کی طرف لے جاسکتی ہے۔ ان کے نزدیک اصل اللہ تعالیٰ کا فرمان : لینفق ذوسعۃ ہے جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے : علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ (البقرہ : 236) اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت اس سے بڑھ کر کوئی چیز عطا نہیں کرتی کہ غنی اور فقیر کے نفقہ میں فرق کیا جائے اور یہ کہ نفقہ خاوند کی تنگ دستی اور خوشحالی کی بنا پر مختلف ہوگا، یہ تو مسلم ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بیوی کی حالت کا اعتبار نہ کیا جائے اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : و علی المولود لہ رزقھن و کسوتھن بالمعروف (البقرۃ :233) یہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ معروف ان دونوں سے متعلق ہے، ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں۔ یہ معروف میں سے نہیں کہ غنی عورت کی ضرورت، فقیر عورت کے نفقہ جیسی ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے ہند سے فرمایا تھا : ” تو اتنا لے جو تیرے اور تیری اولاد کے لئے معروف انداز میں کافی ہو “ (1) ۔ نفقہ کو کفایہ پر پھیر دیا جبکہ آپ حضرت ابوسفیان کی خوشحالی کو جانتے تھے جو ہند کے مطالبہ کی وجہ سے ان پر نفقہ لازم ہوتا تھا۔ حضرت محمد ﷺ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا تھا : تیری ضرورت کا کوئی اعتبار نہیں، تیرے لئے صرف معین شی ثابت ہے بلکہ نفقہ کو پھیر دیا جس مقدار کو آپ اس کی ضرورت میں سے جانتے تھے اسے معین مقدار کے ساتھ معلق نہیں کیا۔ پھر انہوں نے جس تحدید کا ذکر کیا ہے وہ بھی توقیف کی محتاج ہے۔ آیت توقیف کا تقاضا نہیں کرتی۔ حضرت عمر ؓ کا نفقہ کی تعین کرنا مسئلہ نمبر 2 ۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے بچے کے لئے سو درہم معین کئے اور حضرت عثمان ؓ نے پچاس درہم معین کئے (2) ۔ ابن عربی نے کہا : یہ احتمال موجود ہے کہ یہ اختلاف سالوں کے مختلف ہونے یا خوراک اور لباس کے بھائو کے مختلف ہونے کی بنا پر ہو۔ محمد بن ہلالی مزفی نے کہا : میرے والد اور میری دادی نے بیان کیا کہ وہ حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں۔ حضرت عثمان ؓ نے میری دادی کو نہ پایا تو آپ نے اپنے گھر والوں سے پوچھا : کیا وجہ ہے میں فلانہ کو نہیں دیکھتا ؟ حضرت عثمان غنی ؓ کی بیوی نے عرض کی : اے امیر المومنین ! ان کے ہاں آج رات بچہ پیدا ہوا ہے۔ آپ نے اس کی طرف پچاس درہم بھیجے اور سنبلانیہ کپڑے بھیجے۔ پھر فرمایا : یہ تیرے بیٹے کا عطیہ ہے اور یہ اس کا لباس ہے۔ جب اس کی عمر ایک سال ہوجائے گی تو ہم اسے ایک سو تک بڑھا دیں گے۔ حضرت علی شیر خدا کی بارگاہ میں ایک لقیط پیش کیا گیا ہے تو آپ نے اس کے لئے ایک سو درہم وظیفہ معین فرما دیا۔ ابن عربی نے کہا : علماء نے جس میں اختلاف کیا وہ یہ ہے کہ یہ وظیفہ دودھ چھڑانے سے پہلے کا ہے (3) ۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اسے مستحب جانا ہے کیونکہ یہ آیت کے حکم میں داخل ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اسے واجب قرار دیا ہے کیونکہ حاجت نئی پیدا ہوتی رہتی ہے اور ضروریات پیش آتی رہتی ہیں۔ میں بھی یہی کہتا ہوں : جب وہ بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب اس کا دودھ چھڑایا جاتا ہے اس کی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔ سفیان بن وہب نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک مد ایک ہاتھ میں، ایک قسط ایک ہاتھ میں لیا۔ فرمایا : میں نے ہر مسلمان نفس کے لئے ہر ماہ میں دو مد گندم، دو قسط سر کے اور دو قط تیل کے مقرر کئے ہیں۔ ایک راوی نے اضافہ کیا ہے۔ کہا : ہم نے تمہارے لئے ہر ماہ میں تمہارے عطیات اور رزق جاری کردیئے ہیں جس نے ان میں کمی کی، اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ یہ معاملہ فرمائے گا۔ ایسے آدمی کے حق میں بددعا فرمائی۔ حضرت ابودرداء نے کہا : کتنی ہی اچھی ہدایت والی سنتیں ہیں جو حضرت عمر ؓ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی امت میں جاری فرمائی ہیں۔ مد اور قسط کھانے اور سالن میں دو شامی کیل ہیں۔ اس میں ہمارے نزدیک اندازہ یہ ہے کہ طعام میں چوتھائی اور ادام دو آٹھویں حصے۔ جہاں تک لباس کا تعلق ہے تو یہ عادت کے مطابق ہے۔ قمیص، پاجامہ، موسم سرماہ میں جبہ، بڑی چادر، تہبند اور چنائی۔ یہ اصل ہے احوال اور عادت کے مطابق اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ نفقہ کا والد پر وجوب مسئلہ نمبر 3 ۔ یہ آیت نفقہ کے وجوب میں اصل ہے کہ بچے کے لئے یہ والد کے ذمہ ہے، والدہ کے ذمہ نہیں (1) ۔ محمد بن مواز نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے : یہ میراث کے مطابق والدین پر ہے۔ ابن عربی نے کہا : شاید محمد مواز نے ارادہ کیا ہے جب باپ نہ ہو تو یہ ماں پر ہوگا۔ بخاری شریف میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے : ” تیری بیوی تجھے کہتی ہے : مجھ پر خرچہ کر ورنہ مجھے طلاق دے دے، غلام تجھے کہتا ہے : مجھ پر خرچ کر اور مجھ سے کام لے اور تیری اولاد تجھے کہتی ہے : تو مجھ پر اس وقت تک خرچ کرتا رہ یہاں تک تو مجھے سپرد کر دے “۔ قرآن و سنت ایک دوسرے کو قوت عطا کرتی ہیں اور ایک ہی طریقہ پر وارد ہیں ( 2) ۔ اللہ تعالیٰ کا بندے کو اس کی حیثیت کے مطابق مکلف بنانا مسئلہ نمبر 4 ۔ لایکلف اللہ نفسا الاما اتھا یعنی فقیر کو اس کی مثل مکلف نہیں بناتا جس کی مثل غنی کو مکلف بناتا ہے۔ سیجعل اللہ بعد عسریسرا۔ یعنی تنگی کے بعد غنا اور سختی کے بعد وسعت پیدا فرماتا ہے۔
Top