Mutaliya-e-Quran - An-Naml : 10
لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ كِتٰبًا فِیْهِ ذِكْرُكُمْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۠   ۧ
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ : تحقیقی ہم نے نازل کی اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف كِتٰبًا : ایک کتاب فِيْهِ : اس میں ذِكْرُكُمْ : تمہارا ذکر اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟
لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟
[ لَقَدْ انزَلْنَآ : بیشک ہم نے اتاری ہے ] [ اِلَيْكُمْ : تو لوگوں کی طرف ] [ كِتٰبًا : ایک ایسی کتاب ] [ فِيْهِ : جس میں ] [ ذِكْرُكُمْ : تم لوگوں کا ذکر ہے ] [ اَفَلَا تَعقلوْنَ : تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ] نوٹ۔ 1: مشرکین مطالبہ کرتے کہ اگر یہ رسول ہیں تو یہ بھی اسی طرح کی کوئی نشانی دکھائیں جس طرح کی نشانیاں پہلے آنے والے رسولوں نے دکھائیں۔ نشانی سے مراد معجزات ہیں جن کا ذکر دوسرے انبیاء کی سرگزشتوں میں آیا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا کیونکہ قرآن کی دعوت تمام تر آفاق وانفس اور عقل و فطرت کے دلائل پر مبنی ہے۔ وہ معجزات کے بجائے لوگوں کو آنکھیں کھولنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے پر ابھارتا ہے، کیونکہ ایمان کا فطری راستہ یہی ہے۔ جو لوگ عقل و بصیرت سے کام نہیں لیتے وہ معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور عذاب کی نشانی دیکھ کر جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا ایمان لانا بےسود ہوتا ہے۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ کو تسلی دی گئی کہ پہلی قوموں نے ہر قسم کی نشانیاں دیکھیں لیکن ایمان کی راہ اختیار نہ کی تو آپ ﷺ ان سے کس طرح توقع رکھتے ہیں کہ اگر ان کو کوئی نشانی دکھا دی گئی تو یہ ایمان لانے والے بن جائیں گے۔ (تدبر قرآن) نوٹ۔ 2: آیت۔ 4 میں مشرکین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ” یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے۔ “ یعنی وہ نبی ﷺ کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپ ﷺ نبی نہیں ہوسکتے۔ آیت۔ 7 ۔ 8 ۔ میں ان کی اس بات کا جواب دیا گیا ہے کہ پہلے زمانے کے جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے، وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوئے ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہوئے تھے۔ (تفہیم القرآن)
Top