Ahkam-ul-Quran - Maryam : 11
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پاس قَوْمِهٖ : اپنی قوم مِنَ : سے الْمِحْرَابِ : محراب فَاَوْحٰٓى : تو اس نے اشارہ کیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَنْ سَبِّحُوْا : کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
پھر وہ (عبادت کے) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام (خدا کو) یاد کرتے رہو
محراب کیا ہے ؟ قول باری ہے (فخرج علی قومہ من المحراب۔ چناچہ وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آئے) ابوعبیدہ کا قول ہے کہ محراب صدر مجلس یعنی بیٹھنے کی جگہ کے درمیان والے حصے کو کہتے ہیں۔ اسی سے مسجد کا محراب نکلا ہے۔ ایک قول کے مطابق محراب غرفہ یعنی بالا خانہ کو کہتے ہیں۔ اسی سے قول باری ہے (اذ تسوروا المحراب ۔ جب وہ دیوار پھاند کر حجرہ میں آ گئے ) ایک اور قول ہے کہ محراب مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ گونگے کے اشارے سے عمل درآمد ہوسکتا ہے قول باری ہے (فاوحی الیھم اس نے انہیں اشارے سے کہا) ایک قول کے مطابق حضرت زکریاعلیہ السلام نے اپنی قوم کو ہاتھ کے اشارے سے کہا اس طرح ہاتھ کے اشارے نے اس مقام پر قول کی جگہ سے لی اس لئے کہ اشارے سے وہی کچھ بتادیا گیا جو قول کے ذریعے بتایا جاسکتا تھا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ گونگے کے اشارے پر عمل درآمد ہوسکتا ہے اور اس کا یہ اشارہ اس کے ذمہ عائد ہونے والے امور میں قول کے قائم مقام سمجھا جائے گا، تاہم فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایک تندرست انسان کا اشارہ جسے گونگے پن کی کوئی بیماری نہ ہو، اس کے قول کے قائم مقام نہیں قرار دیا جاسکتا۔ گونگے انسان کے اشارے کو یہ حیثیت اس لئے دی گئی کہ گونگا اپنی مشق کی وجہ سے، نیز عادت اور ضرورت کی بنا پر اشارے سے وہ کچھ بتاسکتا ہے جو قول کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک تندرست انسان کی یہ مشق اور عادت نہیں ہوتی اس لئے یہ عملدرآمد کے قابل نہیں ہے۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کسی شخص کی زبان میں رکاوٹ ہو اور زبان پوری طرح نہ چلتی ہو اور اس نے اشارے سے کسی وصیت وغیرہ کی بات کی ہو تو اس کی اس وصیت پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ ایسے شخص کی یہ مستقل عادت اور مشق نہیں ہوتی کہ اسے گونگے کی طرح تسلیم کرلیا جائے۔
Top