Al-Qurtubi - Maryam : 11
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پاس قَوْمِهٖ : اپنی قوم مِنَ : سے الْمِحْرَابِ : محراب فَاَوْحٰٓى : تو اس نے اشارہ کیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَنْ سَبِّحُوْا : کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
پھر وہ (عبادت کے) حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام (خدا کو) یاد کرتے رہو
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فخرج علی قومہ من المحراب یعنی اپنی عبادت گاہ سے ان کی طرف جھانکا ہے۔ محراب بلند جگہ اور معزز مجلس ہوتی ہے۔ لوگ عبادت گاہیں زمین سے اونچی بناتے تھے۔ اس کی دلیل حضرت داؤد (علیہ السلام) کی محراب ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔ لوگوں کا اس کے اشتقاق میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے کہا : یہ الحرب سے مشتق ہے گویا اس میں ہمیشہ رہنے والا شیطان اور شہوات سے جنگ کرتا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : الحرب (راء کے فتحہ کے ساتھ) سے مشتق ہے گویا عبادت خانہ میں رہنے والا تھکن اور مشقت اٹھاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ یہ آیت دلیل ہے کہ امام کا مقتدیوں سے بلند ہوناان کے نزدیک مشروع تھا۔ اس مسئلہ میں فقہاء الامصار کا اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل وغیرہ نے اس کو جائز قرار دیا ہے اور انہوں نے منبر والے واقعہ سے دلیل پکڑی ہے۔ امام مالک نے زیادہ اونچا ہونے سے منع کیا ہے، تھوڑا اونچا ہونے سے نہیں منع کیا۔ اور ان کے اصحاب نے منع کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ امام پر تکبر کا اندیشہ ہوگا۔ میں کہتا ہوں : اس میں نظر ہے اس میں بہتر وہ ہے جوک ابو داؤد نے ہمام سے روایت کیا ہے (1) کہ حذیفہ نے مدائن میں لوگوں کی امامت دکان پر کرائی تو ابو مسعود نے ان کی قمیص سے پکڑ کر انہیں کھنچا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ لوگوں کو اس طرح کرنے سے روکا گیا ہے ؟ حذیفہ نے کہا : ہاں۔ مجھے اس وقت یاد آیا جب تو نے مجھے کھینچا۔ اور عدی بن ثابت انصاری سے رومیت کیا ہے فرمایا : مجھے ایک شخص نے بیان کیا کہ وہ حضرت عمار بن یاسر کے ساتھ مدائن میں تھا۔ نماز کے لیے تکبیر کہی گئی تو عمار بن یاسر آگے بڑھے اور دکان پر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے جبکہ لوگ نیچے تھے۔ حضرت حذیفہ آگے بڑھے اور ان کے ہاتھوں سے پکڑ لیا۔ حضرت عمار ان کے پیچھے پیچھے چلتے آئے حتی کہ حضرت حذیفہ نے انہیں اتار لیا۔ جب عمار نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت حذیفہ نے انہیں کہا : کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا :” جب کوئی شخص قوم کی امامت کرائے تو ان کی جگہ سے بلند جگہ پر کھڑے نہ ہو (1) “ یا اسی جیسے کلمات فرمائے۔ حضرت عمار نے کہا : اسی وجہ سے میں تمہارے پیچھے پیچھے چلاتا آیا جب تو نے میرے ہاتھوں کو پکڑا۔ میں کہتا ہوں : ان تینوں صحابہ نے بلند جگہ پر کھڑے ہونے کے بارے میں نہی کی خبر دی ہے۔ اور کسی نے حدیث منبر سے حجت نہیں پکڑی، تو یہ دلیل ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے۔ اور اس کے نسخ پر دلیل یہ ہے کہ اس میں عمل زائد ہے اور وہ منبر سے اترنا اور چڑھنا ہے پس یہ منسوخ ہے۔ جس طرح نماز میں کلام اور سلام منسوخ ہیں۔ یہ اولیٰ ہے اس سے ہمارے اصحاب سے اترنا اور چڑھنا ہے پس یہ منسوخ ہے۔ اور اس کے نسخ پر دلیل یہ ہے کہ اس میں عمل زائد ہے اور وہ منبر سے اترنا اور چڑھنا ہے پس یہ منسوخ ہے۔ جس طرح نماز میں کلام اور سلام منسوخ ہیں۔ یہ اولیٰ ہے اس سے ہمارے اصحاب نے دلیل پیش کی ہے کہ نبی کریم ﷺ تکبر سے محفوظ تھے، نیز بہت سے آئمہ ایسے ہوتے ہیں جن میں کبر نہیں ہوتا۔ ان میں سے بعض نے یہ علت بیان کی ہے کہ منبر کی بلندی تھوڑی تھی۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاوحی الیھم ان سبحو بکرۃ و عشیا۔ کلبی، قتادہ اور بن منبہ نے کہا : اس نے ان کی طرف اشارہ کیا ہے (2) قتبی نے کہا : اس نے اشارہ کیا۔ مجاہد نے کہا : اس نے زمین پر لکھا۔ عکرمہ نے کہا : کتاب میں کئی کتب۔ کلام میں وحی کا مطلب لکھنا۔ اسی سے ذوالرمۃ کا قول ہے : سوی الاربع الدھم اللواتی کا نھا بقیۃ وحی فی بطون الصحائف عثر نے کہا ہے : کو حی صحائف من عھد کسری باھداھا لا عجم طمطمی ان دونوں اشعار میں وحی بمعنی کتابت استعمال ہوئی ہے۔ بکرۃ و عشیا دونوں ظرف ہیں۔ فراء نے کہا : العشی مؤنث ہے اور اس کی تذکیر جائز ہے جب تو اسے مبہم کرے۔ اس نے کہا : کبھی العشی، عشیۃ کی جمع ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ سورة آل عمران میں اشارہ میں حکم گزر چکا ہے۔ ہمارے علماء کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ کوئی کہے : میں فلاں سے کلام نہیں کروں گا، پھر اس کی طرف تحریر لکھ دے یا کوئی پیغام رساں بھیج دے۔ امام مالک نے فرمایا : ایسا کرنے سے وہ حانث ہوجائے گا مگر یہ کہ اس نے بالمشافہ گفتگو کرنے کی نیت کی ہو۔ پھر رجوع کیا اور فرمایا : تحریر میں نیت نہ ہوگی اور وہ حانث ہوجائے گا مگر یہ کہ خط پہنچنے سے پہلے واپس لے لے۔ ابن القاسم نے کہا : جب وہ اس تحریر کو پڑھے گا تو حانث ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر قسم اٹھانے وال محلوف علیہ (جس کے متعلق قسم اٹھائی گئی تھی) کی تحریر پڑھے تو بھی یہ حکم ہے۔ اشہب نے کہا : جب قسم اٹھانے والا اسے پڑھے گا تو حانث (قسم توڑنے والا) نہ ہوگا۔ یہ واضح ہے کہ کیونکہ اس نے کلام نہیں کی اور نہ کلام سے ابتدا کی مگر یہ کہ اس نے ارادہ کیا ہو کہ وہ اس کی کلام کا معنی نہیں جانے گا تو اس صورت میں حانث ہوجائے گا۔ ابن القاسم کا قول اس پر مخحمول ہوگا اگر قسم اٹھائے کہ وہ ضرور اس سے کلام کرے گا پھر تو وہ اپنی قسم کو پورا نہیں کرسکے گا حتی کہ بالمشافہ گفتگو کرے۔ ابن الماجشون نے کہا : اگر یہ قسم اٹھائے کہ اس نے جانا تو وہ اسے سکائے گا یا اسے خبر دے گا پھر اس نے اسے لکھ کر بھیج دیا یا کوئی پیغام رسان بھیج دیا تو وہ قسم پوری کرنے والا ہوگا۔ اور اگر دونوں نے اسے سکھایا تو قسم پوری کرنے والا نہیں ہوگا حتی کہ وہ اسے سکھائے کیونکہ ان دونوں کا علم مختلف ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ امام مالک، امام شافعی کو اور کو فیوں کا اتفاق ہے گونگا جب اپنے ہاتھ سے طلاق لکھے گا تو طلاق لازم ہوجائے گی۔ کو فیوں نے کہا : مگر کوئی شخص کئی دن بہرہ کیا گیا ہو پھر اس نے طلاق لکھی تو اس سے کوئی چیز جائز نہ ہو۔ طحاوی نے کہا : گونگا، عارضی بہرے پن کے مخالف ہے جیسا کہ مرض کی وجہ سے ایک دن جماع سے عارضی عاجز شخص کا حکم جماع سے ہمیشہ مایوس شخص کے حکم کے مخالف ہے، جیسا کہ جدائی میں عورت کے حیار کے باب میں مجنون کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ییحی خذ الکتب بقوۃ۔ یہ اختصار ہے جس پر کلام دلالت کر رہی ہے۔ الکتب سے مراد تورات ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ بقوۃ۔ سے مراد کوشش اور اجتہاد ہے، یہ مجاہد کا قول ہے (1) بعض علماء نے فرمایا : اس سے اس کا علم حاصل کرنا، اس کو یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا ہے۔ اور یہ عمل کرنا ہے اس کے اوامر کا التزام ہے اور نواہی سے رکنا ہے یہ زید بن اسلم کا قول ہے۔ سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و اتینہ الحکم صبیا۔ بعض علماء نے فرمایا : الحکم سے مراد احکام اور ان کی معرفت ہے۔ معمر نے روایت کیا ہے کہ بچوں نے یحییٰ سے کہا : ہمارے ساتھ چلو ہم کھیلیں گے۔ انہوں نے کہا : میں کھیل کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا : و اتینہ الحکم صبیا۔ قتادہ نے کہا : آپ اس وقت دو یا تین سال کے تھے۔ مقاتل نے کہا : آپ تین سال کے تھے۔ صبیا پر نصب حال کی بنا پر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جس نے بالغ ہونے سے پہلے پر آن پڑھا وہ وہ ہے جسے بچپن میں حکم عطا کیا گیا (2) ۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عمر کے طریق سے نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : ” قیامت کے روز آدم (علیہ السلام) کا ہر بیٹا آئے گا اور اس پر گناہ ہوگا سوائے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے “ قتادہ نے کہا : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے کبھی اللہ تعالیٰ کی کوئی چھوٹی اور بڑی نافرمانی نہیں کی۔ (3) اور نہ آپ کو کسی عورت کو خیال آیا۔ مجاہد نے کہا : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا کھانا، گھاس تھا۔ اس کے رخساروں پر آنسوئوں کے لیے گزرگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ وسیداً وحصوراً ، کا معنی سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔
Top