Ruh-ul-Quran - Maryam : 11
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پاس قَوْمِهٖ : اپنی قوم مِنَ : سے الْمِحْرَابِ : محراب فَاَوْحٰٓى : تو اس نے اشارہ کیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَنْ سَبِّحُوْا : کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
پس وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اشارے سے کہا کہ تم صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔
فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا (مریم : 11) (پس وہ محراب سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اشارے سے کہا کہ تم صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔ ) محراب کا مفہوم اس آیت کریمہ میں ایک لفظ محراب استعمال ہوا ہے۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ گمان ہوا ہے کہ یہ بھی کوئی ایسا ہی محراب ہوگا جیسے ہماری مسجدوں میں امام کے کھڑا ہونے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) ایسے ہی کسی محراب میں تھے کہ ان پر بشارت نازل ہوئی اور پھر ان کی درخواست پر علامت کے طور پر تین راتوں تک ان سے تکلم کی صلاحیت واپس لے لی گئی۔ چناچہ اس محراب سے نکل کر آپ ( علیہ السلام) لوگوں کی طرف آئے تو محراب سے یہ محراب مراد نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے بلکہ اہل کتاب کی عبادت گاہوں کی عمارت سے متصل سطح زمین سے کافی بلندی پر جو کمرے بنائے جاتے تھے انھیں محراب کہا جاتا تھا۔ ان میں عبادت گاہ کے مجاور اور خدام رہتے تھے اور انھیں کمروں میں لوگ اعتکاف بھی کرتے تھے۔ ممکن ہے ایسے ہی کسی کمرے میں حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی معتکف ہوں جب انھیں یہ بشارت دی گئی۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) وہاں سے نکلے چونکہ آپ ( علیہ السلام) بول نہیں سکتے تھے اور طریقہ یہ تھا کہ جب کاہن اعظم اندر عبادت گاہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مصروف ہوں تو دوسرے لوگ اندر نہیں جاسکتے تھے۔ چناچہ آپ ( علیہ السلام) جب باہر نکلے تو لوگ آپ ( علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ ( علیہ السلام) نے انھیں حمدوتسبیح میں مشغول رہ کر انتظار کرنے کا اشارہ کیا جس کا مطلب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بہت بڑا راز ان پر منکشف ہونے والا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ تسبیح و تحلیل میں مشغول رہ کر اس کا انتظار کریں۔ اس کے بعد یہاں کچھ محذوفات ہیں جو غور کرنے سے سمجھ میں آتے ہیں کہ ان تین راتوں کے ختم ہونے سے پہلے یا اس کے فوراً بعد حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی۔ وہ اپنے عظیم باپ کی نگرانی میں پلے بڑھے۔ ایک خاص عمر کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت سے نوازا۔ کہا جاتا ہے کہ نبوت انھیں بچپن میں دے دی گئی لیکن لوگوں کی اصلاح کا کام اور نبوت کا اعلان آپ ( علیہ السلام) نے کم و بیش تیس سال کی عمر میں شروع کیا۔ چناچہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے جو خصوصی احسانات ہوئے ان میں سے چند ایک کا ذکر اگلی آیت میں کیا جارہا ہے۔
Top