Anwar-ul-Bayan - Maryam : 11
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
فَخَرَجَ : پھر وہ نکلا عَلٰي : پاس قَوْمِهٖ : اپنی قوم مِنَ : سے الْمِحْرَابِ : محراب فَاَوْحٰٓى : تو اس نے اشارہ کیا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَنْ سَبِّحُوْا : کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
سو وہ محراب سے اپنی قوم پر نکلے اور ان کو اشارہ سے فرمایا کہ صبح شام اللہ کی تسبیح میں مشغول رہو۔
(فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّ عَشِیًّا) سو زکریا (علیہ السلام) اپنی قوم پر نکلے یعنی محراب سے باہر آئے عام طور سے نمازی ان کے انتظار میں رہتے تھے جب وہ دروازہ کھولتے تو اندر داخل ہوجاتے اور ان کے ساتھ نماز پڑھ لیتے تھے اور روزانہ صبح شام ایسا ہوتا تھا اپنی بیوی کے استقرار حمل کے بعد حسب عادت محراب کا دروازہ کھولا تھا تو لوگ موجود تھے وہ حسب سابق اندر داخل ہوگئے لیکن آج صورت حال مختلف تھی کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کلام نہیں کرسکتے تھے۔ بولنے پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے اشارہ سے فرمایا کہ صبح و شام حسب سابق نماز پڑھتے رہو۔ (معالم التنزیل ص 190 ج 3) لفظ محراب سے اپنے اس زمانہ کی معروف محراب نہیں ہے مطلق نماز کی جگہ یا حجرہ مراد ہے اسی لیے بعض اکابر نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ وہ اپنے حجرہ سے نکلے اور یہ ترجمہ سورة آل عمران کی آیت (کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْھَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ) کے مطابق ہے اور دوسرا ترجمہ یعنی نماز کی جگہ آل عمران کی دوسری آیت (فَنَادَتْہُ الْمَلآءِکَۃُ وَ ھُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ ) کے موافق ہے لفظ محراب حرب سے بمعنی جنگ مفعال کے وزن پر ہے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ عبادت کی جگہ کو محراب اس لیے کہا جاتا ہے کہ عبادت کرنے والا گویا اس میں شیطان سے جنگ کرتا ہے (یعنی شیطان کے وسوسوں اور اس کے مزین کیے ہوئے اعمال کو پس پشت ڈال کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور شیطان دیکھتا ہی رہ جاتا ہے) ۔
Top