Ahkam-ul-Quran - Al-Furqaan : 65
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ١ۖۗ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اصْرِفْ : پھیر دے عَنَّا : ہم سے عَذَابَ جَهَنَّمَ : جہنم کا عذاب اِنَّ : بیشک عَذَابَهَا : اس کا عذاب كَانَ غَرَامًا : لازم ہوجانے والا ہے
اور وہ جو دعا مانگتے رہتے ہیں کہ اے پروردگار دوزخ کے عذاب کو ہم سے دور رکھیو کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے
قول باری ہے : (ان عذابھا کان غراما۔ اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے۔ ) ایک قول کے مطابق (غراما) کے معنی لازم، چمٹ جانے والا اور ہمیشہ ساتھ لگا رہنے والا کے ہیں۔ اسی سے غریم یعنی قرض خواہ کا لفظ نکلا ہے کیونکہ قرض خواہ اپنے مقروض کے ساتھ چمٹا رہتا ہے ۔ اسی سے یہ محاورہ بھی ہے۔ ” انہ لمغرم بانسانء “ (فلاں شخص عورتوں کا دیوانہ ہے) یعنی ان کے پیچھے لگا رہتا ہے اور اسے ان کے بغیر چین نہیں آتا۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔ ان یعاقب یکن غراما وان یعط جزیلا فانہ لا یبالی اگر اسے سزا دی جائے تو وہ دیوانہ ہوجائے گا اور اگر اسے بڑا حصہ دیا جائے تو اس کی پروا نہیں کرے گا۔ بشر بن ابی حازم کا شعر ہے : یوم النسار ویوم الجفا وکان عذابا وکان غراما جدائی کا دن اور جفا کا دن یہ دونوں دن عذاب کے اور جان کے لاگو دن ہیں۔ ہمیں ثعلب کے غلام ابوعمر نے بتایا ہے کہ لغت میں غرم کے اصلی معنی لزوم کے ہیں۔ پھر اس نے اس کی تائید میں وہ شواہد پیش کیے جو ہم اوپر بیان کر آئے ہیں۔ قرض کو غرم اور مغرم کا نام دیا جاتا ہے اس لئے کہ وہ لزوم اور مطالبہ کا مقتضی ہوتا ہے ۔ طالب کو عزیم کہا جاتا ہے اس لئے کہ اسے لزوم کا حق ہوتا ہے اور مطلوب کو بھی غریم کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے خلاف لزوم کا ثبوت ہوتا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد (لا یغلق الرھن لصاحیہ غنمہ وعلیہ غرمہ) رہن کے فائدے سے اس کے مالک کو بند نہیں رکھا جائے گا اور اس پر اس کا قرض لازم ہوگا، بھی اسی پر محمول ہے یعنی غرم سے مراد اس کا وہ قرض ہے جس کے ساتھ وہ شخص مرہون اور جکڑا ہوا ہے۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ غرم کے معنی ہلاک ہوجانے کے ہیں۔ ابو عمر نے بتایا ہے ک لغت کے لحاظ سے یہ بات غلط ہے۔ جن سے مروی ہے کہ ہر قرض خواہ اپنے مقروض کا پیچھا چھوڑ دے گا لیکن جہنم اپنے مقروض کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
Top