Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Hujuraat : 9
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
وَاِنْ
: اور اگر
طَآئِفَتٰنِ
: دو گروہ
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں سے، کے
اقْتَتَلُوْا
: باہم لڑپڑیں
فَاَصْلِحُوْا
: توصلح کرادو تم
بَيْنَهُمَا ۚ
: ان دونوں کے درمیان
فَاِنْۢ
: پھر اگر
بَغَتْ
: زیادتی کرے
اِحْدٰىهُمَا
: ان دونوں میں سے ایک
عَلَي الْاُخْرٰى
: دوسرے پر
فَقَاتِلُوا
: تو تم لڑو
الَّتِيْ
: اس سے جو
تَبْغِيْ
: زیادتی کرتا ہے
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَفِيْٓءَ
: رجوع کرے
اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ
: حکم الہی کی طرف
فَاِنْ
: پھر اگر جب
فَآءَتْ
: وہ رجوع کرلے
فَاَصْلِحُوْا
: تو صلح کرادو تم
بَيْنَهُمَا
: ان دونوں کے درمیان
بِالْعَدْلِ
: عدل کے ساتھ
وَاَقْسِطُوْا ۭ
: اور تم انصاف کیا کرو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُقْسِطِيْنَ
: انصاف کرنے والے
اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس وہ رجوع لائے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
باغیوں کے خلاف قتال کا بیان قول باری ہے (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحو ا بینھما۔ اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں برسرپیکار ہوجائیں تو ان کے درمیان اصلاح کرادو) ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے حسن بصری سے کہ مسلمانوں کے کچھ افراد کے درمیان کوئی تنازعہ تھا جو سلجھ نہ سکا اور پھر یہ لوگ ہاتھا پابی اور جو تم پیزار پر اتر آئے، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی۔ معمر کہتے ہیں کہ قتادہ نے کہا ہے کہ دو شخصوں کے درمیان کسی حق کے سلسلے میں کوئی جھگڑا تھا۔ یہ دونوں اس کے متعلق ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ پھر ایک نے کہا میں زبردستی اپنا حق لے لوں گا۔ اس نے یہ بات اس لئے کہی تھی کہ اس کے خاندان کے افراد کی تعداد زیادہ تھی۔ دوسرے نے اس کے جواب میں کہا کہ میرے اور تمہارے درمیان رسول اللہ ﷺ ہیں۔ تنازعہ بڑھ جانے پر یہ دونوں ہاتھا پائی اور جو تم پیزار پر اتر آئے۔ سعید بن جبیر اور شعبی سے مروی ہے کہ انہوں نے ڈنڈوں اور جوتوں سے ایک دوسرے کی پٹائی شروع کردی۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہ اوس اور خزرج کے قبیلے تھے۔ ان کے درمیان ڈنڈوں سے لڑائی ہوئی تھی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت باغی گروہ کے خلاف جنگ کرنے کے امر کا مقتضی ہے حتیٰ کہ یہ اللہ کے حکم کی طرف آئے۔ آیت میں قتال کی تمام صورتوں کے لئے عموم ہے اگر باغی گروہ جوتوں اور ڈنڈوں کے ساتھ قتال کے ذریعے حق کی طرف لوٹ آئے تو اس صورت میں جوتوں اور ڈنڈوں سے بات آگے نہیں بڑھائی جائے گی۔ اگر وہ جوتوں اور ڈنڈں سے سیدھے نہ ہوں تو ان کے خلاف تلوار سے جنگ کی جائے گی۔ جیسا کہ ظاہر آیت اس چیز کو متضمن ہے۔ اگر باغی گروہ اپنی بغاوت پر ڈٹا رہے اور حق کی طرف رجوع نہ کرے تو اس صورت میں صرف ڈنڈوں پر اکتفا کرنا کسی کے لئے جائز نہیں ہوگا بلکہ اس صورت میں اگر ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہوگی تو ہتھیار بھی اٹھا لئے جائیں گے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی یہ بھی ایک صورت ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (من رای منکم منکرا فلیغایرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذاک ضعف الایمان۔ تم میں سے کوئی شخص اگر غلط بات دیکھے توا سے اپنے ہاتھ سے بدل ڈالے، اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اسے بدلنے کی کوشش کرے اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے اسے برا سمجھے یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے) حضور ﷺ نے ہاتھ سے برائی کے ازالے کا حکم دیا اور اس میں ہتھیار اور غیر ہتھیار کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس لئے ظاہر حدیث منکر کے ازالے کا مقتضی ہے خواہ وہ جس طریقے سے بھی ہو۔ کچھ بیکار قسم کے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ باغیوں کی سرکوبی صرف ڈنڈوں اور جوتوں نیز ہتھیاروں سے کم چیزوں کے ذریعے کی جائے۔ ان کے خلاف ہتھیاروں کے ساتھ جنگ نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے اس واقعہ سے استدلال کیا ہے جو ہم نے آیت کے نزول کے سلسلے میں بیان کیا ہے نیز یہ کہ اس میں جوتوں اور ڈنڈوں کے ذریعے لڑائی ہوئی تھی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے جو بات بیان کی ہے اس پر اس واقعہ کی کوئی دلالت نہیں ہے۔ کیونکہ اس واقعہ میں لوگ ڈنڈوں کے ساتھ لڑے تھے یعنی اس لڑائی میں ہتھیاروں کے سوا دوسری چیزیں استعمال کی گئی تھیں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں فریقوں میں سے باغی اور سرکش فریق کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا اور یہ تخصیص نہیں کی کہ اس کے خلاف ہماری جنگ ہتھیاروں کے سوا دوسری چیزوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ اہل بغی کے خلاف جنگ کرنے کی جو صورت مناسب ہوگی ہوگی وہ ہم اختیار کریں گے۔ اگر ہتھیاروں کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت پیش آئے گی تو ہم ہتھیار استعمال کریں گے اور اس کے بغیر دوسری چیز مثلاً ڈنڈوں وغیرہ سے کام چل سکتا ہو تو ڈنڈوں سے کام چلائیں گے یہاں تک کہ باغی گروہ حق کی طرف لوٹ آئے اور اپنی سرکشی سے دست بردار ہوجائے۔ آیت کا نزول جس واقعہ کے تحت ہوا ہے اس میں ڈنڈوں اور جوتوں سے لڑائی ہوئی تھی لیکن اس سے لازم نہیں آتا کہ آیت میں ہمیں ان کے خلاف قتال کا جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف ڈنڈوں اور جوتوں کے استعمال تک محدود رہے۔ جب کہ آیت کا عموم ہتھیار اور ہتھیار سے کم چیزوں کے ساتھ قتال کا مقتضی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اللہ کا حکم یہ ہوتا کہ ” جو شخص تمہارے ساتھ ڈنڈے کے ساتھ لڑائی کرے تم اس کے ساتھ ہتھیار سے لڑو۔ “ تو اس صورت میں اس حکم کے اندر کوئی تناقض نہ ہوتا۔ یہی صورت اس حکم کی ہے جو اللہ نے ہمیں اہل بغی کے خلاف قتال کے سلسلے میں دیا ہے کیونکہ اس کا عموم ہتھیار اور غیر ہتھیار دونوں کا مقتضی ہے۔ اس لئے اسے عموم کی صورت میں باقی رکھنا واجب ہے۔ حضرت علی ؓ نے بھی ہتھیاروں کے ساتھ باغیوں کے خلاف جنگ کی تھی۔ آپ کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کرام تھے جن میں بدریین (غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے) بھی تھے۔ حضرت علی ؓ ان باغیوں کے خلاف جنگ کرنے میں برحق تھے۔ کسی نے آپ کی مخالفت نہیں کی صرف یہ باغی گروہ اور اس کے ہمنوا جن کا آپ نے مقابلہ کیا تھا اس معاملے میں آپ کے مخالف تھے۔ حضور ﷺ نے حضرت عمار ؓ سے فرمایا تھا (تقتلک الفئۃ الباغیۃ۔ تمہیں باغی گروہ قتل کردے گا) یہ حدیث تواتر کی بنا پر خبر مقبول کا درجہ رکھتی ہے حتیٰ کہ حضرت معاویہ ؓ کو بھی اس کے انکار کی ہمت نہیں ہوئی۔ جب حضرت ابن عمر ؓ نے ان سے اسے بیان کیا اس موقعہ پر انہوں نے صرف اتنا ہی کہا : ” عمار کو دراصل اس نے قتل کیا جو انہیں اپنے ساتھ لے کر آیا تھا (اشارہ حضرت علی ؓ کی طرف ہے) اور پھر انہیں ہمارے نیزوں کے درمیان پھینک گیا۔ “ اس حدیث کی اہل کو فراء اہلی بصرہ، اہل حجاز اور اہل شام سب نے روایت کی ہے۔ یہ حدیث حضور ﷺ کی نبوت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے کیونکہ یہ آئندہ رونما ہونے والے واقعہ کے متعلق اطلاع ہے جس کا علم صرف علام الغیوب کی طرف سے اس کے نبی ﷺ کو دیا گیا تھا۔ خوارج کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں قتل کرنے کے ایجاب کی بہت سی روایتیں حضور ﷺ سے مروی ہیں جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں۔ حضرت انس ؓ اور حضرت ابوسعید ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” میری امت میں عنقریب اختلاف پیدا ہوجائے گا۔ ایک گروہ ایسا ہوگا جو باتیں تو بڑی اچھی کرے گا لیکن اس کے اعمال بہت برے ہوں گے، وہ دین سے اس طرح نکل جائے گا جس طرح تیرا پنے نشانے سے پار نکل جاتا ہے۔ یہ لوگ واپس نہیں ہوں گے جب تک کہ تیرواپس نہ آجائے (اور یہ محال ہے) یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ سعادت ہے اس شخص کے لئے جو انہیں قتل کرے یا ان کے ہاتھوں قتل ہوجائے ۔ یہ لوگ کتاب اللہ کی طرف بلائیں گے لیکن کتاب اللہ کے ساتھ خود ان کا کوئی تعلق نہیں ہوگا جو شخص انہیں قتل کرے گا وہ ان کی بہ نسبت اللہ سے زیادہ قریب ہوگا۔ “ صحابہ ؓ نے عرض کیا ” اللہ کے رسول ﷺ ! ان کی نشانی کیا ہوگی ؟ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” تحلیق “ یعنی ان کے سر مونڈے ہوں گے۔ اعمش نے خیثمہ سے اور انہوں نے سوید بن غفلہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” لوگو ! جب میں تمہیں حضور ﷺ کی کوئی حدیث سنائوں تو یادرکھو کہ میرے لئے آسمان سے اسی طرح نیچے گر جانا کہ فضا میں پرندے مجھے اچک لیں زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ میں حضور ﷺ سے کوئی جھوٹی حدیث بیان کروں اور جب میں تم سے موجودہ حالات کے بارے میں گفتگو کروں تو اس کے متعلق یادرکھو کہ جنگ ایک چال ہوتی ہے۔ “ یعنی ہوسکتا ہے کہ کسی مصلحت کی خاطر میں تم سے کھل کر بات نہ کروں۔ آپ نے مزید فرمایا، میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ زمانہ نبوت کے آخر پر کچھ لوگ ابھریں گے جن کی عمریں کم ہوں گی جو سمجھ بوجھ کے لحاظ سے بیوقوف ہوں گے۔ باتیں تو وہ بہترین کریں گے لیکن ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانے کے پار نکل جاتا ہے۔ اگر تمہارا ان کے ساتھ آمنا سامنا ہو تو ان کی گردنیں اڑادو۔ انہیں قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن اجر ملے گا۔ “ باغی سے جنگ کرکے اسے قتل کیا جاسکتا ہے باغی گروہ کو راہ راست پر لانے کے لئے تلوار سے کم کوئی چیز اگر کارگر نہ ہو تو ان کے خلاف جنگ کے وجوب پر صحابہ کرام کے درمیان کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ تمام صحابہ کرام خوارج کے خلاف جنگ کے قائل تھے، اگر یہ حضرات ان کے خلاف جنگ نہ کرتے بلکہ مقابلہ سے بیٹھ رہتے تو خوارج ان سب کو قتل کردیتے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کرلیتے اور انہیں برباد کرکے رکھ دیتے۔ اگر یہ کہا جائے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت نے حضرت علی ؓ کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ ان میں حضرت سعد ؓ ، محمد بن مسلمہ ؓ ، اسامہ بن زید ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ شامل تھے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ انہوں نے اس لئے ساتھ نہیں دیا تھا کہ وہ باغی گروہ کے خلاف جنگ کے قائل نہیں تھے بلکہ ممکن ہے کہ انہوں نے اس بناء پر عملی طور پر جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا کہ ان کے خیال میں امام المسلمین یعنی حضرت علی ؓ کا ان کے خلاف اپنے رفقاء کے ساتھ نبردآزما ہونا کافی تھا اور ان کی ضرورت نہیں تھی اس لئے انہوں نے جنگ میں شرکت نہ کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ خوارج کے خلاف ان حضرات نے جنگوں میں حصہ نہیں لیا تھا اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ ان کے نزدیک خوارج کے خلاف قتال واجب نہیں تھا بلکہ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ جنگ میں ان کی ضرورت نہیں ہے دوسرے لوگ کافی ہیں تو انہوں نے عملی طور پر ان جنگوں میں حصہ لینا مناسب نہیں سمجھا۔ اگر ہمارے مخالفین اس روایت سے استدلال کریں جس میں حضور ﷺ نے فرمایا تھا (ستکون فتنۃ القائم فیھا اخیر من الماشی والقاعد فیھا خیر ھن القائم۔ عنقریب فتنہ وفساد برپا ہوگا اس میں کھڑا رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور بیٹھارہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ نے اس سے وہ فتنہ مراد لیا ہے جس میں لوگ دنیا کی طلب اور عصبیت کی بنا پر ایک دوسرے کا گلا کاٹیں گے۔ اس میں امام المسلمین کے ساتھ جس کی اطاعت واجب ہوتی ہے مل کر قتال نہیں ہوگا لیکن جب یہ ثابت ہوجائے گا کہ فریقین میں سے ایک گروہ باغی اور دوسرا گروہ عادل اور امام المسلمین کا ساتھ دینے والا ہے تو اس صورت میں امام المسلمین اور اس کے ہمنوائوں کے ساتھ مل کر باغی گروہ کی سرکوبی واجب ہوگی اور ایسی جنگ میں حصہ لینے والا اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہوگا۔ کلمہ توحید کے قائل کو ناحق قتل کرنا ممنوع ہے اگر یہ کہا جائے کہ ایک فوجی مہم میں حضرت اسامہ ؓ نے ایسے شخص کو قتل کردیا تھا جس نے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا تھا۔ حضرت اسامہ ؓ کو شک لھا کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لئے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہے، لیکن جب یہ بات حضور ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ کو انتہائی صدمہ پہنچا اور آپ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ سے فرمایا۔” تم نے اسے مار ڈالا جب کہ اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا تھا۔ “ آپ ﷺ نے یہ فقرہ کئی بار دہرایا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شخص کلمہ گو ہو اس کے خلاف نہ تو جنگ کی جائے اور نہ ہی اسے قتل کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان کے خلاف اس لئے جنگ کی جاتی تھی کہ وہ مشرک تھے، ان کے خلاف جنگ کے خاتمے کی شرط یہ تھی کہ وہ کلمہ توحید کا اقرار کرلیں۔ جس طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوالا الہ الا اللہ ، فاذاقا لوھا عصموا منی دماء ھم واموالھم الا بحقھا۔ مجھے حکمی دیا گیا ہے کہ جب تک لوگ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں اس وقت تک میں ان کے خلاف جنگ کرتا رہوں۔ جب وہ یہ کلمہ کہہ دیں گے تو میرے ہاتھوں سے اپنی جان اور اپنا مال محفوظ کرلیں گے سوائے اس صورت کے جب ان کی جان یا ان کا مال کسی حق کے بدلے میں لیا جائے) یہ مشرکین جب کلمہ توحید کا اقرار کرلیتے تو ان تمام باتوں کو قبول کرلیتے جن کی طرف انہیں بلایا جاتا یعنی بت پرستی چھوڑ کر توحید کا اقرار کرلیتے۔ اس کی نظیر وہ صورت ہے جب باغی بغاوت سے کنارہ کش ہوکر حق کی طرف لوٹ آئیں تو ان کے خلاف قتال کا حکم ساقط ہوجاتا ہے۔ ان کے خلاف جنگی کاروائی صرف اس بنا پر کی جاتی ہے کہ وہ اہل عدل یعنی امام المسلمین کے وفادار لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوتے ہیں۔ اس لئے جب وہ اس حرکت سے باز آجائیں گے تو ان کے خلاف جنگی کاروائی بھی رک جائے گی۔ جس طرح مشرکین سے اس لئے قتال کیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کا اقرار کرلیں۔ جب وہ اسلام کا اظہار کردیں گے تو قتال کا حکم ان سے زائل ہوجائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ رہزنوں اور امام المسلمین کے خلاف برسر پیکار لوگوں کے خلاف جنگی کاروائی کی جاتی تھی حالانکہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کے قائل ہوتے تھے۔ باغیوں کے خلاف اقدام کی ابتدا کیسے کی جائے ؟ قول باری ہے (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما۔ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کرنے لگیں تو ان کے درمیان اصلاح کرادو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان جنگ شروع ہوجانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان اصلاح کرانے کا حکم دیا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ دونوں گروہوں کو صلاح اور حق کی طرف تیز کتاب وسنت کے حکم اور ترک بغاوت کی طرف بلایا جائے (فان بغت احداھما علی الاخری۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے کے ساتھ زیادتی کرے) یعنی۔ واللہ اعلم۔ اگر ایک گروہ حق کی طرف لوٹ آئے اور اصلاح کا ارادہ کرلے لیکن دوسرا گروہ بغاوت اور سرکشی پر اڑا رہے اور حق کی طرف رجوع کرلینے سے باز رہے تو اس صورت میں دوسرے گروہ کے خلاف جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ سے پہلے حق کی طرف بلانے کا حکم دیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ لوٹنے سے انکار کردے تو اس کے خلاف جنگی کاروائی کی جائے گی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی یہی طریق کار اختیار کیا تھا۔ آپ نے سب سے پہلے باغی گروہ کو حق کی طرف لوٹ آنے کی دعوت دی اور ان پر حجت تمام کردی لیکن جب انہوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا تو آپ نے ان کے خلاف جنگ شروع کی۔ آیت میں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ فساد عقائد کی بنا پر باغیوں سے جنگ نہیں کی جائے گی جب تک وہ خود قتال کی ابتداء نہ کریں کیونکہ قول باری ہے (فان بغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تقیء الی امر اللہ۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس سے لڑو جو زیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے) ان سے لڑائی کرنے کا حکم صرف اسی صورت میں دیا گیا ہے۔ جب وہ دوسروں کے خلاف جنگ کرکے ان کے ساتھ زیادتی کریں۔ حضرت علی ؓ نے بھی خوارج کے ساتھ یہی طریقہ کار اختیار کیا تھا۔ خوارج جب حضرت علی ؓ کے لشکر سے الگ ہوگئے تو آپ نے ان کی طرف حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو بھیجا، انہوں نے جاکر انہیں واپس آجانے کی دعوت دی لیکن انہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا۔ پھر آپ خود ان کے پاس گئے اور ان کے ساتھ سوال وجواب کیا جس کے نتیجے میں ایک گروہ واپس ہوگیا لیکن دوسرا گروہ اپنی بغاوت پر ڈٹارہا۔ جب یہ لوگ کوفہ میں داخل ہوئے تو حضرت علی ؓ کے خطبے کے دوران مسجد کے ایک گوشے سے ” ان الحکم الا اللہ “ (فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اللہ کو ہے) کا نعرہ بلند کیا۔ حضرت علی ؓ نے یہ سن کر فرمایا : ” کلمۃ حق ارید بھا الباطل (یہ کلمہ حق ہے لیکن اس کا ایک غلط مفہوم لیا گیا ہے) پھر آپ نے یہ اعلان کیا۔ انہیں تین حقوق حاصل رہیں گے، ہم انہیں اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے نہیں روکیں گے، جب تک ان کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں میں ہوں گے اس وقت تک فی یعنی مال غنیمت وغیرہ میں ان کا حق انہیں دیتے رہیں گے اور جب تک یہ ہمارے خلاف جنگ نہیں کریں گے اس وقت تک ہم ان کے خلاف جنگی کاروائی نہیں کریں گے۔ باغیوں سے چھینے ہوئے مال کا حکم ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام محمد نے مبسوط میں کہا ہے کہ یہ مال مال غنیمت نہیں ہوگا۔ البتہ ان سے چھینے ہوئے ہتھیار اور گھوڑے ، خچر وغیرہ ان کے خلاف جنگ میں استعمال کیے جائیں گے۔ جب جنگ کا خاتمہ ہوجائے گا تو ان کا مال انہیں واپس کردیا جائے گا اور جب ایک بھی باغی باقی نہیں رہے گا ان کے گھوڑے وغیرہ بھی انہیں واپس کردیئے جائیں گے۔ جو چیزیں استعمال میں آکر ختم ہوچکی ہوں گی ان کے بدلے میں کوئی چیز نہیں دی جائے گی۔ ابراہیم بن الجراح نے امام ابویوسف سے ذکر کیا ہے کہ باغیوں کے قبضے میں جتنا ہتھیار اور گھوڑے، گدھے نیز خچر وغیرہ ہوں گے وہ فی شمار ہوں گے انہیں مال غنیمت کی طرح تقسیم کیا جائے گا اور خمس بھی نکالا جائے گا۔ پھر جب یہ لوگ توبہ کرلیں گے تو ان سے کسی خون کا بدلہ نہیں لیا جائے گا اور نہ ہی اس مال کا معاوضہ لیا جائے گا جو یہ اپنے استعمال میں لاکر ختم کرچکے ہوں گے۔ امام مالک کا قول ہے کہ خوارج نے جو جانیں لی ہوں گی یا جو مال انہوں نے ختم کیا ہوگا توبہ کرلینے پر ان سے ان چیزوں کا حساب نہیں لیا جائے گا۔ البتہ اگر کوئی مال بعینہ موجود ہوگا وہ واپس کرایا جائے گا۔ اوزاعی اور امام شافعی کا بھی یہ قول ہے۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ مسلح چوروں سے لڑائی کی صورت میں اگر انہیں قتل کرنے کے بعد ان کے مال پر قبضہ کرلیاجائے گا تو یہ مال لڑائی میں حصہ لینے والوں کے لئے مال غنیمت شمار ہوگا۔ البتہ اس سے خمس پہلے نکال لیا جائے گا۔ ہاں اگر کوئی چیز ایسی ہوگی جس کے بارے میں یہ علم ہو کہ انہوں نے اسے لوگوں کے گھروں سے چرایا تھا تو اس صورت میں وہ چیز مال غنیمت شمار نہیں ہوگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت علی ؓ سے منقول روایتوں میں اختلاف ہے۔ فطر بن خلیفہ نے منذر بن یعلیٰ سے روایت کی ہے اور انہوں نے محمد بن الحنفیہ سے کہ امیر المومنین حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے دن ہاتھ آنے والے ہتھیاروں اور گھوڑوں ، خچروں وغیرہ کو اپنے رفقاء کے درمیان مال غنیمت کے طور پر تقسیم کردیا تھا۔ اس روایت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے جو ایسے مال کو مال غنیمت قرار دینے کے قائل ہیں۔ لیکن اس میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ یہ مال غنیمت تھا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ حضرت علی ؓ نے ہاتھ آنے والے ہتھیاروں اور جانوروں کو اس بنا پر تقسیم کردیا ہو کہ جنگ کے خاتمے سے پہلے انہیں جنگی کاروائیوں میں استعمال کیا جائے۔ آپ نے یہ چیزیں اپنے رفقاء کی ملکیت میں نہیں دی تھیں جیسا کہ امام محمد نے مبسوط میں کہا ہے۔ عکرمہ بن عمار نے اوزمیل سے روایت کی ہے، انہوں نے عبداللہ بن الدولی سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ خوارج کو حضرت علی ؓ پر اس بات کا غصہ تھا کہ آپ نے جنگ جمل میں باغیوں کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار نہیں کیا تھا اور نہ ہی ان کے مال کو مال غنیمت قرار دیا۔ اس پر حضرت علی ؓ نے ان سے یہ کہا تھا ” کیا پھر تم اپنی ماں عائشہ ؓ کو گرفتار کرتے اور ان سے اسی طرح پیش آتے جس طرح قیدی لونڈیوں سے پیش آتے ہو، اگر تم ایسا کرتے تو تم یقینا کافر ہوجاتے۔ ابو معاویہ نے صلت بن بہرام سے روایت کی ہے، انہوں نے ابو وائل سے۔ ابن بہرام کہتے ہیں کہ میں نے ابو وائل سے پوچھا کہ آیا حضرت علی ؓ نے جنگ جمل میں چھینے ہوئے اموال کا خمس نکالا تھا ؟ انہوں نے نفی میں اس کا جواب دیا۔ زہری کہتے ہیں کہ جب خانہ جنگی کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا تو اس وقت صحابہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان سب کا اس پر اتفاق تھا کہ اس فتنہ کے دوران تاویل کی بنا پر بہنے والے خون اور استعمال شدہ مال کا کوئی تاوان نہیں۔ باغیوں کے مال کو مال غنیمت شمار نہیں کیا جائے گا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں جو کچھ مال چھوڑ کر آئے ہیں اسے مال غنیمت شمار نہیں کیا جاتا خواہ وہ سب قتل کیوں نہ ہوجائیں۔ اسی طرح جو مال وہ اپنے ساتھ لے کر میدان جنگ میں آتے ہیں اسے بھی مال غنیمت شمار نہیں کیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اہل حرب کے اموال کو مال غنیمت شمار کیا جاتا ہے خواہ یہ اموال ان سے میدان جنگ میں چھینے گئے ہوں یا ان کے گھروں میں موجود ہوں۔ مال غنیمت ہونے کے لحاظ سے ان اموال میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کا جو مال بھی ہمارے قبضے میں آجاتا ہے وہ مال غنیمت شمار ہوتا ہے۔ نیز اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ باغیوں کی عورتوں اور بچوں کو قیدی نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی ان کی گردنوں کی ملکیت حاصل ہوگی اسی طرح ان کے مال کا بھی مسئلہ ہے کہ اسے مال غنیمت نہیں بنایا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ عرب کے مشرکین کی گردنوں کی ملکیت حاصل نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود ان کا مال مال غنیمت شمار ہوتا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان کی گردنوں کی ملکیت اس لئے حاصل نہیں ہوتی کہ گرفتار ہوجانے پر اگر وہ اسلام نہ لائیں تو انہیں قتل کردیا جاتا ہے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جاتا ہے اسی لئے ان کے مال کو مال غنیمت قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خوارج کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ان کی طاقت وقوت بکھر چکی ہو تو اس صورت میں ان کے قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو کسی صورت میں قیدی نہیں بنایا جائے گا۔ اسی طرح ان کے مال کو بھی مال غنیمت قرار نہیں دیا جائے گا۔ باغیوں کے قیدیوں اور زخمیوں کا حکم کوثر بن حکیم نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :” ام عبد کے بیٹے ! اس امت میں جو لوگ بغاوت کریں ان کے متعلق اللہ کا کیا حکم ہے ؟ “ حضرت ابن عمر نے جواب دیا۔ اللہ اور اس کے رسول کو بہتر علم ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” باغیوں میں سے جو لوگ زخمی ہوں گے انہیں ہلاک نہیں کیا جائے گا، ان کے گرفتار شدہ قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا اور بھاگنے والوں کا تعاقب نہیں کیا جائے گا۔ “ عطاء بن السائب نے ابو النجتری اور عامر سے روایت کی ہے جنگ جمل میں حضرت علی ؓ کو جب فتح ہوگئی تو آپ نے حکم جاری کیا ” بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کرو ۔ اور زخمی کو ہلاک نہ کرو۔ “ شر کی نے سدی سے اور انہوں نے عبد خیر سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے دن اعلان کیا کسی قیدی کو قتل نہ کرو، کسی زخمی کو ہلاک نہ کرو، جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے امان مل جائے گی۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ حضرت علی ؓ کا فیصلہ تھا اور ہمیں سلف میں سے کسی کے متعلق اس فیصلے سے اختلاف کا کوئی علم نہیں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ باغیوں کی جتھا بندی اگر ختم ہوجائے اور ان کا ٹولہ باقی نہ رہے تو اس صورت میں ان کے زخمی کو نہ تو ہلاک کیا جائے گا نہ قیدی کو قتل کیا جائے گا اور نہ ہی بھاگنے والے کا تعاقب کیا جائے گا۔ اگر ان کی جتھا بندی قائم ہوگی تو امام المسلمین کی صوابدید کے مطابق ان کے قیدی کو قتل کیا جاسکے گا اور ان کے زخمی کو ہلاک اور بھاگنے والے کا تعاقب کیا جاسکے گا۔ حضرت علی ؓ کا درج بالا قول اس صورت پر محمول ہے جب کہ باغیوں کی جتھا بندی ختم ہوجائے۔ کیونکہ آپ نے یہ بات جنگ جمل کے موقعہ پر فرمائی تھی اور ظاہر ہے کہ شکست کھانے کے بعد ان کا کوئی جتھا باقی نہیں رہا تھا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جنگی کاروائیوں کے دوران حضرت علی ؓ نے ابن یثریٰ کو گرفتار کرلیا تھا اور جنگ جمل کے دن اسے قتل کردیا تھا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ پہلے قول سے آپ کی مراد یہ تھی کہ باغیوں کی گروہ بندی جب ختم ہوجائے اور ان کا جتھا باقی نہ رہے تو اس صورت میں مذکورہ احکام جاری ہوں گے۔ باغیوں کے فیصلوں کے متعلق بیان امام ابویوسف نے رسالہ البرم کی میں کہا ہے کہ مرکز کے وفادار مسلمانوں کے قاضی کے لئے باغیوں کے قاضی کے فیصلہ نامے، اس کی لی ہوئی گواہی اور اس کے فیصلے کو جائز قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ امام محمد کا بھی یہی قول ہے۔ انہوں نے یہ کہا ہے کہ اگر خوارج اپنوں میں سے کسی کو قاضی مقرر کردیں اور وہ کوئی فیصلہ جاری کرے پھر یہ فیصلہ اہل عدل یعنی وفادار مسلمانوں کے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ اسے نافذ نہ کرے۔ البتہ اگر یہ فیصلہ اس کی رائے کے موافق ہو تو صرف اس پر صادر نہ کرے بلکہ اپنی طرف سے اسے نئے سرے سے جاری کرے۔ امام محمد نے یہ بھی کہا ہے کہ خوارج اگر اہل عدل میں سے کسی کو قاضی مقرر کریں اور اس نے کوئی فیصلہ کیا ہو پھر یہ فیصلہ اہل عدل کے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ اس فیصلے کو اسی طرح نافذکردے گا جس طرح وہ اہل عدل کے کسی اور قاضی کے فیصلے کو نافذ کرتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ باغی جو فیصلے کریں گے ان کی چھان بین کی جائے گی، اور اس کے بعد ان کا جو فیصلہ شرعی لحاظ سے درست ہوگا اہل عدل کا قاضی اسے نافذ کردے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر خوارج کسی شہر پر قبضہ کرلیں اور اس شہر کے باشندوں سے زکوٰۃ وغیرہ وصول کرلیں اور ان پر حدود وغیرہ قائم کریں تو اس صورت میں ان شہریوں سے نہ تو دوبارہ زکوٰۃ وصول کی جائے گی اور نہ ہی ان پر کوئی حد دوبارہ قائم کی جائے گی۔ نیز ان کے مقرر کردہ قاضی کے درست فیصلوں کو رد نہیں کیا جائے گا۔ البتہ اس کے غلط فیصلے اس طرح رد کردیے جائیں گے جس طرح اہل عدل کے قاضی کے غلط فیصلے رد کردیے جاتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی جان یا اس کے مال کے متعلق خوارج کے مقرر کردہ قاضی کی رائے قابل اطمینان نہ ہو تو اس کا فیصلہ نافذ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کا فیصلہ نامہ قابل قبول ہوگا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ باغی جب قتال پر اتر آئیں اور اہل عدل کے ساتھ ان کی زیادتی واضح ہوجائے تو اس صورت میں ان کے خلاف جنگ کرنا اور انہیں قتل کرنا واجب ہوجاتا ہے اس لئے ایسے لوگوں کی گواہی قبول کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ بغاوت کا اظہار اور اہل عدل سے جنگ فعل کی جہت سے فسق ہے اور فعل کی جہت سے فسق کا ظہور گواہی قبول کرنے میں مانع ہوتا ہے جس طرح زانی، چور اور شرابی کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ باغیوں کی گواہی قبول کرتے ہیں تو پھر ان کے فیصلے کیوں نہیں نافذ کرتے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ امام محمد بن الحسن نے یہ کہا ہے کہ باغیوں کی گواہی اس وقت تک قابل قبول ہوگی جب تک وہ اہل عدل کے خلاف جنگ کریں۔ لیکن جب وہ جنگ شروع کردیں تو امام محمد کے قول کے مطابق ان کی گواہی قابل قبول نہ ہوگی۔ امام محمد نے ان کے فیصلوں اور ان کی گواہی کو یکساں درجے پر رکھا ہے۔ انہوں نے اس بارے میں ہمارے اصحاب کے درمیان کسی اختلاف رائے کا ذکر بھی نہیں کیا ہے۔ یہ ایک ٹھوس بات ہے اور اس کی علت وہی ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فقہاء کا قول ہے کہ خوارج اگر کسی علاقے پر قبضہ کرلیں اور وہاں کے لوگوں سے مویشیوں اور پھلوں کی زکوٰۃ اور عشر وصول کرلیں تو اس صورت میں ان لوگوں سے دوبارہ زکوٰۃ اور عشر وصول نہیں کیا جائے گا اس طرح فقہاء نے خوارج کی اس وصولی کو اہل عدل کی وصولی کی طرح قرار دے دیا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ خوارج کی طرف سے وصول کی بنا پر لوگوں سے زکوٰۃ اور عشر ساقط نہیں ہوگا کیونکہ فقہاء نے یہ کہا ہے کہ ایسے لوگوں پر اپنے طور پر زکوٰۃ کی دوبارہ ادائیگی واجب ہوگی۔ یہ معاملہ ان کے اور اللہ کے درمیان رہے گا یعنی اللہ کے سامنے بری الذمہ ہونے کے لئے انہیں دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔ خوارج کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرلیے جانے کی صورت میں انہوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی کے وجوب کے ساقط نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا ہے کہ ایسی صورت میں امام المسلمین کی طرف سے اس کی وصولی کا حق ساقط ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام المسلمین کو اس کی وصولی کا حق صرف اس بنا پر حاصل ہوتا ہے کہ وہ زکوٰۃ دینے والوں کی حفاظت اور ان کے دفاع کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ جب امام المسلمین انہیں باغیوں کے ہاتھوں سے بچا نہیں سکے گا تو اسے ان لوگوں سے زکوٰۃ کی وصولی کا کوئی حق نہیں ہوگا اور اس حق کے سقوط کے باب میں باغیوں کی طرف سے اس کی وصولی اما المسلمین کی طرف سے وصولی قرار دی جائے گی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر اہل عدل کا کوئی فرد باغیوں کے کسی عاشر کے پاس سے مال لے کر گزرے اور وہ اس سے عشر وصول کرلے تو امام المسلمین اس وصولی کو کسی حساب میں شمار نہیں کرے گا اس لئے جب یہ شخص اپنا مال لے کر اہل عدل کے عاشر کے پاس سے گزرے گا تو وہ اس سے عشر وصول کرلے گا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ معترض نے فقہاء کی جو بات نقل کی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ وصولی کے سلسلے میں امام کا حق ساقط ہوجائے گا یہ مفہوم نہیں ہے کہ فقہاء نے باغیوں کے فیصلوں اور احکام کو اہل عدل کے فیصلوں اور احکام کی طرح قرار دیا ہے۔ اگر باغیوں کا مقرر کردہ قاضی اہل عدل میں سے ہو تو اس صورت میں فقہاء نے اس کے فیصلوں کو جائز قرار دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ قاضی کے فیصلے کے نفاذ کی صحت کے لئے جس بات کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قاضی فی نفسہٖ عادل ہو نیز اس کے لئے پوری قوت کے ساتھ اپنے فیصلوں کو نافذ کرنا اور لوگوں کو ان فیصلوں پر چلانا ممکن ہو خواہ اس قاضی کو عہدہ قضا پر مامور کرنے والا شخص خود عادل ہو یا باغی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کسی شہر میں کوئی حاکم نہ ہو اور وہاں کے لوگ متفقہ طور پر کسی شخص کو قاضی مقرر کردیں تو ان کا یہ اقدام جائز ہوگا اور ان کے متعلق اس کے فیصلے نافذ العمل ہوں گے۔ اسی طرح وہ شخص جسے باغیوں نے قضا کے عہدے پر مامور کردیا ہو اگر فی نفسہٖ عادل ہو تو اس کے دیے ہوئے احکامات نافذ العمل ہوں گے۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ تعزیری سزا حد کی سزا سے بڑھ سکتی ہے۔ وہ قول باری (فان بغت احداھما علی الاخریٰ فقاتلوا التی تبغی حتی لفیء الی امر اللہ) سے استدلال کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بغاوت پر ڈٹے رہنے والے گروہ کے خلاف اس وقت تک جنگ جاری رکھنے کا حکم دیا ہے جب تک وہ حق کی طرف رجوع نہ کرلیں۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ تعزیری سزا اس وقت تک جاری اور واجب رہتی ہے جب تک یہ معلوم نہ ہوجائے کہ مجرم نے جرم سے توبہ کرکے مکمل طور پر اس سے باز آگیا ہے کیونکہ تعزیر جرائم کے انسداد اور لوگوں کو ان سے باز رکھنے کی خاطر ہوتی ہے اور عرف میں اس سزا کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی جس طرح باغیوں کے خلاف جنگ بغاوت کے انسداد کی خاطر ہوتی ہے۔ اس کا اس وقت تک جاری رہنا واجب ہے، جب تک باغی بغاوت سے باز نہ آجائیں اور ان کا مکمل طور پر انسداد نہ ہوجائے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ تعزیری سزا حد کے تحت ملنے والی سزا تک پہنچنی نہیں چاہیے بلکہ اس کی مقدار اس سے کم ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس سلسلے میں حضور ﷺ کے اس ارشاد (من بلغ حدا فی غیر حد فھو من المعتدین، جو شخص غیر حد میں کسی جرم پر حد کے برابر سزا دیتا ہے وہ حد سے تجاوز کرنے والا شمار ہوتا ہے) سے استدلال پر اکتفا کیا ہے۔
Top