Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Hujuraat : 9
وَ اِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰى تَفِیْٓءَ اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
وَاِنْ
: اور اگر
طَآئِفَتٰنِ
: دو گروہ
مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں سے، کے
اقْتَتَلُوْا
: باہم لڑپڑیں
فَاَصْلِحُوْا
: توصلح کرادو تم
بَيْنَهُمَا ۚ
: ان دونوں کے درمیان
فَاِنْۢ
: پھر اگر
بَغَتْ
: زیادتی کرے
اِحْدٰىهُمَا
: ان دونوں میں سے ایک
عَلَي الْاُخْرٰى
: دوسرے پر
فَقَاتِلُوا
: تو تم لڑو
الَّتِيْ
: اس سے جو
تَبْغِيْ
: زیادتی کرتا ہے
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
تَفِيْٓءَ
: رجوع کرے
اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ
: حکم الہی کی طرف
فَاِنْ
: پھر اگر جب
فَآءَتْ
: وہ رجوع کرلے
فَاَصْلِحُوْا
: تو صلح کرادو تم
بَيْنَهُمَا
: ان دونوں کے درمیان
بِالْعَدْلِ
: عدل کے ساتھ
وَاَقْسِطُوْا ۭ
: اور تم انصاف کیا کرو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يُحِبُّ
: دوست رکھتا ہے
الْمُقْسِطِيْنَ
: انصاف کرنے والے
اگر ایمان والوں میں سے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں ، پس صلح کر ائو ان دونوں کے درمیان پس اگر ایک بغاوت کرے ان میں سے دوسرے کے خلاف ، پس سب اس کے ساتھ لڑو جو بغاوت کرتا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے اللہ کے حکم کی طرف ۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو صلح کر ائو ان کے درمیان عدل کے ساتھ اور انصاف کرو ، بیشک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے انصاف کرنے والوں کو
ربط آیات اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہتر طریقے سے بسر کرنے اور نظام حکومت کو صحیح طریقے پر قائم کرنے سے متعلق اس سورة میں بڑے اہم اصول و ضوابط بیان فرمائے ہیں ۔ پہلا اصول یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو ، اور ہر حالت میں اللہ سے ڈرتے ہو ۔ پیغمبر خدا کی مجلس میں اپنی آواز کو بلند نہ کرو اور نہ ہی آپ کے سامنے زور سے بولو ۔ پھر فرمایا کہ اگر کوئی جھوٹا آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس پر بلا تحقیق عمل نہ شروع کردو بلکہ اس کی اچھی طرح تفتیش کرلو تا کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو ۔ جس سے بعد میں پشیمان ہونا پڑے ۔ فرمایا یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے۔ اللہ نے ایمان کو تمہارے دلوں میں مزید کیا ہے اور کفر ، نافرمانی اور گناہ کی نفرت ڈالی ہے ، لہٰذا اس بات کا یہی تقاضا ہے کہ تم مذکورہ اصولوں پر سختی سے کاربند رہو ۔ تا کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کامیاب ہو سکو۔ مصالحت کا ضابطہ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے چھٹا اہم اصول یہ بیان فرمایا ہے وان طائفتن من المومنین اقتلوا اگر اہل ایمان کے د و گروہ آپس میں لڑ پڑیں فاصلحوا بینھما تو ان دونوں کے درمیان صلح کرا دو ، اگر مسلمانوں کی جماعت میں خلیفہ وقت یا اس کا مقررکردہ حاکم موجود ہے تو اولین ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے کہ وہ دو متحارب فریقوں کے درمیان صلح کا بندوبست کرے اور اگر حاکم موجود نہیں ہے تو پھر ساری جماعت المسلمین کا فرض بنتا ہے کہ وہ دو گروہوں کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑے کو مٹانے کی کوشش کریں ۔ چناچہ حضور ﷺ کے زمانے مبارکہ میں اس قسم کے کئی واقعات پیش آئے جن میں آپ نے مخاصم فریقوں کے درمیان صلح صفائی کرا دی ۔ کئی مواقع پر مہاجرین اور انصار کے درمیان مخاصمت پیدا ہوئی تو آپ نے ان کے درمیان صلح کرا کے جھگڑے کو ختم کردیا ۔ مدینہ طیبہ میں اوس اور خزرج کے قبائل سینکڑوں سال سے آباد تھے۔ اور ان کی آپس میں دشمنی بھی بڑی پرانی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں ان دو خاندانوں کی آپس میں معمولی معمولی باتوں پر لمبے عرصہ تک لڑائیاں ہوتی رہیں ، حتیٰ کہ ایک لڑائی ایک سو بیس سال تک نسلا ً بعد نسلا ً چلتی رہی ۔ حضور ﷺ مدینہ پہنچے تو آپ نے ان دو قبیلوں کے درمیان تمام پرانے جھگڑوں کو ختم کرا دیا ۔ ان کی دشمنی جاتی رہی اور وہ باہم شیرو شکر بن کر رہنے لگے۔ حدیث شریف میں غزوہ بدر سے پہلے کا ایک واقعہ آتا ہے ۔ ہجرت کے بعد قریبی زمانہ میں حضور علیہ السلا م اپنے ایک صحابی حضرت سعد ابن عبادہ ؓ کی بیمار پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔ اس وقت تک رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی ابھی زبانی طور پر بھی ایمان نہیں لایا تھا اور صحابی کا گھر اسی منافق کے محلہ میں تھا۔ حضور ﷺ گدھے پر سوار اس محلہ میں پہنچے تو وہاں عبد اللہ بن ابی اور اس کے بعد ساتھی بیٹھے تھے۔ ان پر گدھے کے چلنے کی وجہ سے کچھ گرد و غبار اڑ کر پڑا ، تو عبد اللہ کے منہ سے نکلا ، صاحب ! اپنے گدھے کو ہم سے دور رکھیں کیونکہ اس کے پائوں کی گرد و غبار اور اس کی بو ہمیں تکلیف دیتی ہے ، لہٰذا آپ ہماری مجلسوں میں نہ آیا کریں ۔ وہاں پر ایک مسلمان بھی موجود تھا۔ جس نے اس ناشائستہ کلمے کا بڑا برا منایا ، اور آپ سے مخاطب ہو کر عرض کیا کہ حضور ! آپ ہماری مجلسوں میں ضرور آیا کریں ، یہ تو ہمارے لیے باعث برکت ہوگا ۔ کلمات کے اس تبادلہ پر دونوں میں الجھائو پیدا ہوگیا ۔ ایک طرف عبد اللہ کے حامی تھے۔ تو دوسری طرف کچھ مسلمان بھی جمع ہوگئے ، کافی تکرار ہوا ، حتیٰ کہ ایک دوسرے پر لاٹھی اور جوتے بھی چلے ، حضور ﷺ اپنی سوار ی سے اترے ، فریقین کو سمجھایا اور ان کے درمیان مصالحت کرا دی جس سے معاملہ رفع دفع ہوگیا ۔ ایک انصاری اور اس کی بیوی کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا ۔ بیوی میکے جانا چاہتی تھی مگر خاوند اس کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ جب بیوی نے اصرار کیا تو خاوند نے اس کو مکان کی اوپر والی منزل میں بند کردیا ۔ بیوی نے کسی ذریعے سے اپنے خاندان والوں کو اس زیادتی کی اطلاع کردی ، وہ لوگ آئے اور خاوند سے پوچھ گچھ کی ، اتنے میں اس شخص کے خاندان والوں کو اس تنازعہ کی خبر ملی تو وہ بھی پہنچ گئے۔ فریقین میں تکرار ہوا ۔ دھینگا مشتی ہوئی اور پھر نوبت لڑائی تک پہنچ گئی ۔ جب اس بات کی خبر حضور ﷺ کو ہوئی تو آپ نے فریقین کے درمیان صلح صفائی کرا دی اور اس طرح جنگ و جدل کا ایک بڑا خطرہ ٹل گیا ۔ اس قسم کے دیگر واقعات بھی ملتے ہیں کہ دو مومن فریقین میں جھگڑا پیدا ہوا تو آپ نے صلح صفائی کرا دی ۔ الغرض اللہ نے اس آیت کریمہ میں یہی بات سمجھائی ہے کہ اگر مومنوں کے دو گروہوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کرا دو ۔ اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ دو مومن آدمیوں کا آپس میں لڑنا کبیرہ گناہ ہے مگر اس کے باوجود انہیں مومن ہی کہا گیا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے قتال المومن کفرو سبابہ فسق یعنی کسی مومن آدمی کے ساتھ لڑنا کفر ہے جب کہ اس کو گالی دینا فسق ہے ، تا ہم کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے بھی آدمی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ، اسی لیے فرمایا کہ متحارب گروپوں کی آپس میں صلح کرا دیا کرو ۔ جھگڑے تنازعے میں دو افراد بھی ملوث ہو سکتے ہیں ، دو خاندان بھی اور دو جماعتیں ، پارٹیاں یا فرقے بھی ۔ اس کے علاوہ دو ملک بھی متحارب فریق بن سکتے ہیں ۔ ہر جگہ یہی اصول کار فرما ہے کہ جھگڑا جہاں بھی ہو اس کو رفع کر کے فریقین کے درمیان صلح کرا دو ۔ صحابہ ؓ میں اختلافات حضور ﷺ کا اپنا زمانہ مبارکہ تو خیر القرون یعنی بہترین زمانہ تھا۔ اس کے بعد اختلافات پیدا ہونے شروع ہوئے جو پھیلتے ہی چلے گئے اور آج تک معاملات سلجھنے کی بجائے الجھتے ہی رہے ہیں ۔ حضور ﷺ کے بعد آپ کے صحابہ کرام ؓ میں بھی اختلافات پیدا ہوئے مگر ان کی بنیاد نفسانیت پر نہیں بلکہ اجتہاد پر تھی ۔ اللہ نے تمام صحابہ ؓ کے حق میں اپنی خوشنودی کا اعلان کردیا ہے لہٰذا ہمیں انکے بارے میں کلام نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے دین کے لیے عظیم خدمات انجام دیں ، اللہ نے ان کی کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف کر یا ہے۔ اسی لیے ہمارے بزرگوں میں سے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رح) فرماتے ہیں کہ مجھے صحابہ کرا م ؓ کے اختلافات کے بارے میں شرح صدر حاصل ہے اور مجھے یقین ہے کہ صحابہ ؓ میں سے کسی کا اختلاف ، نفسیانیت ، خود غرضی یا ضد کی بناء پر نہیں تھا۔ بلکہ محض اجتہادی اختلاف تھا ۔ صحابہ ؓ میں سے حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے حضرت طلحہ ؓ اور حضرت زبیر ؓ کے درمیان بھی اختلاف رائے ہوا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے درمیان شکر رنجی وغیرہ سب اجتہادی اختلافات تھے۔ امام قرطبی (رح) نے امام حسن بصری (رح) سے نقل کیا ہے کہ کسی نے کہا کہ اختلافات تو صحابہ کرام ؓ کے درمیان بھی پیدا ہوئے اور پھر ان کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں ۔ اس کے جواب میں امام حسن بصری (رح) نے فرمایا کہ صحابہ ؓ کے اختلافات کے وقت وہ خود وہاں موجود تھے جب کہ ہم وہاں موجود نہیں تھے۔ اس وقت کے حالات کو وہ جانتے تھے جب کہ ہم ان کو نہیں جانتے لہٰذا جس معاملہ میں صحابہ ؓ نے اتفاق کیا ، ہم نے اس کا اتباع کیا ، اور جس چیز میں انہوں نے اختلاف کیا ، ہم نے اس میں توقف کیا ۔ کم از کم ہمیں کسی ایسے معاملہ میں ضد اور عناد کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ امام شافعی (رح) اور امیر المومنین عمر ابن عبد العزیز (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ جب ان سے صحابہ کرام ؓ کے اختلافات کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ان لوگوں کے خوف سے اللہ نے ہماری تلواروں کو پاک رکھا ہے یعنی ہماری تلواروں نے ان کا خون بہانے میں حصہ نہیں لیا ، لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زبانوں کو بھی ان کے اختلافات سے پاک رکھیں ۔ شاہ ولی اللہ (رح) بھی فرماتے ہیں ” ماموریم از کف لسان در حق ایشاں “ کہ جہاں صحابہ کرام ؓ میں آپس کے اختلافات کا تذکرہ ہو وہاں ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنی زبانوں کو روک رکھیں اور سب کو بہتری کے ساتھ یاد کریں ۔ ہمیں اللہ کے نبی کی طرف سے یہی حکم دیا گیا ہے۔ اگر صحابہ کرام ؓ کے بارے میں زبان کھولی گئی ۔ ان پر نکتہ چینی کی گئی یا طعن و ملامت کا دروازہ کھولا گیا تو دین کا دروازہ درہم برہم ہوجائے گا کیونکہ وہ لوگ دین کے اولی راویا ن اور دین کو دنیا میں پھیلانے والے اولین معلمین ہیں ۔ اگر صحابہ ؓ پر اعتماد اٹھ گیا ۔ تو پھر نہ قرآن پر اعتماد برقرار رہے گا ، نہ حدیث پر اور نہ سنت پر ، غرضیکہ صحابہ کرام ؓ کے بارے میں یہی عقیدہ رکھنا چاہئے کہ وہ سب کے سب عادل تھے۔ حضرت علی ؓ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے جن لوگوں کے خلاف جنگیں لڑی ہیں ۔ کیا وہ مشرک تھے ؟ فرمایا نہیں ، بلکہ جن کے خلاف جنگ جمل یا جنگ صفیں لڑی گئی وہ تو شرک سے بھاگنے والے تھے۔ پھر پوچھا گیا ، کیا وہ منافق تھے ؟ فرمایا نہیں ، منافقون کی صفت تو اللہ نے یہ بیان کی ہے ۔ ولا یذکرون اللہ الا قلیلا ً ( النسائ : 142) کہ وہ اللہ کا ذکر کم ہی کرتے ہیں مگر یہ لوگ تو پورے طریقے سے خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں ، پھر پوچھا گیا کہ آخر آپ نے ان کے خلاف جنگ کیوں کی ؟ حضرت علی ؓ نے فرمایا اخواننا بغوا علینا یہ ہمارے بھائی ہیں مگر انہوں نے ہمارے خلاف سر کشی اختیار کی ۔ اس لیے ان کے خلاف جنگ کرنا پڑی ۔ شیعوں کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں بھی ہے کہ حضر ت علی ؓ نے اپنے خطبے کے دوران فرمایا کہ ہمارے اور شامیوں کے درمیان اختلاف کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہمارا دین ہی الگ الگ ہے بلکہ دیننا واحد ہمارا دین تو ایک ہی ہے ہماری کتاب بھی ایک ہے اور نبی بھی ایک ہے الا ما اختلفنا فی دم عثمان البتہ ہمارا اور ان کا اختلاف حضرت عثمان ؓ کے خون بہا کے بارے میں ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ کے خون کے ذمہ دار ہم یا ہماری جماعت ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ونحن براء ہم اس خون سے بری ہیں ۔ ہم اس میں ہرگز شریک نہیں ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم ان سے دین میں بڑھ کر نہیں اور وہ ہم سے بڑھ کر نہیں ۔ بہر حال مسلمانوں کے اختلافات کے دوران سمجھوتے اور صلح صفائی کی کوششیں عام طور پر ناکام ہی ہوئی ہیں ۔ بہت شاذ معاملات ایسے ہوئے ہیں ، جہاں کہیں معاملہ سلجھ گیا ہو ۔ متاخرین کی بد قسمتی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان بالعموم لڑتے بھڑتے ہی ختم ہوئے ہیں بادشاہت ملی تو دوسروں کو ختم کیا یا خود مٹ گئے۔ عالم اسلام میں اس قسم کے اختلافات ہمیشہ رہے ہیں ۔ موجودہ زمانے میں ایران اور عراق کے درمیان ایک چھوٹے سے علاقے کا تنازعہ گزشتہ آٹھ سال سے چل رہا ہے۔ اس جنگ میں پانچ لاکھ عراقی اور سات لاکھ ایرانی ہلاک ہوچکے ہیں اور جو زخمی ہوئے ہیں وہ الگ ہیں ، مالی نقصان کا اندازہ ہی نہیں لگایاجا سکتا ۔ اپنی پوری کوشش کے باوجود مسلم امہ فریقین کی صلح کرانے میں نا کام رہی ہے ( بالآخر یہ مسئلہ عراق کی طرف سے متنازعہ علاقہ سے یکطرفہ دست برداری اور جنگ بندی کی بناء پر ختم ہوگیا مگر اس کے بعد عراق نے کو یت پر بزور قبضہ کرلیا ۔ تمام مسلمان ممالک نے صلح صفائی کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ آخر کار امریکہ اور دوسرے مغربی مالک کی مشرکہ افواج نے کو یت کو واگزار کرایا ) بہر حال اللہ نے یہ ضابطہ بتلا دیا ہے کہ آپس میں حسد اور بغض نہ کرو ، ایک دوسرے کی مخالفت نہ کرو ، حد سے زیادہ نہ بڑھو ، اور بھائی بھائی بن کر رہو ۔ فرمایا اگر دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو فان بغت احد ھما علی الاخری پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر سر کشی کرے فقاتلوا التی تبغی تو سارے مل کر بغاوت کرنے والے کی سر کو بی کرو ۔ حتیٰ تفیء الی امر اللہ یہاں تک کہ سر کشی کرنے والا اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ۔ مطلب یہ کہ زیادتی کرنے والے فریق کو مجبور کر دو کہ وہ حکم الٰہی کی تعمیل کر کے سر کشی اور زیادتی کو ختم کردے۔ عام طریے سے صلح نہ ہونے کی صورت میں اللہ نے زیادتی کرنے والے فریق کو طاقت کے ذریعے مغلوب کرنے کا بھی حکم دیا ہے عالمی تنظیم اقوام متحدہ (U.N.O) پر تو اکثر و بیشتر کافر ، مشرک ، دہریے ، یہود ، ہنودنصاریٰ اور کمیونسٹ قابض ہیں ۔ وہ اگر مسلمانوں کی آپس میں صلح نہیں کراتے تو ان سے کیا گلہ ہو سکتا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ خود مسلمانوں نے اس طرف کبھی سنجیدگی سے پیش رفت نہیں کی ۔ فساد کو ختم کرنے کا آخری طریقہ یہی ہے کہ سارے مل کر ظالم کا ہاتھ روک دو ۔ فرمایا اس آخری کارروائی کے نتیجے میں فان فاء ت اگر زیادتی کا مرتکب فریق خدا کے حکم کی طرف لوٹ آئے یعنی وہ صلح پر آمادہ ہوجائے فاصلحوا بینھمابالعدل تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو ۔ واقسطوا اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دو ، حق دار کو اس کا حق دلائو ، اور الم کو سر زنش کرو ، فرمایا انصاف کرو کیونکہ ان اللہ یحب المقسطین بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ، ظلم و زیادتی ، بےانصافی ، طرفداری ، خود غرضی اور رشوت ستانی سے فساد ہی پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیشہ عدل و انصاف کو پیش نظر رکھو ، اور اسی کے مطابق صلح کر ائو ۔ کیونکہ انما المومنون اخوۃ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ اختلاف بھائیوں میں بھی ہو سکتا ہے اور اس کو سلجھانے کا طریقہ یہی ہے۔ فاصلحوا بین اخویکم کہ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو ، عدل و انصاف اور صلح جوئی ہی معاشرے کے امن وامان کی ضمانت ہے ، مگر تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے اس ضابطے کی ہمیشہ مخالفت کی ۔ ہماری تاریخ شرو فساد سے بھری پڑی ہے۔ مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کافروں سے بھی بد تر سلوک کیا ۔ برصغیر میں سوریوں ، مغلوں ، تغلق خاندان اور دوسروں کے ساتھ اختلافات نے کیا گل کھلائے ، عباسیوں ، امویوں اور عثمانیوں کے اختلافات نے لاکھوں آدمی موت کے گھاٹ اتار دیے۔ کیا یہ بھائیوں جیسا سلوک ہے ؟ اللہ نے فرمایا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کی بجائے صلح ہونی چاہئے۔ فرمایا واتقوا اللہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔ انسان کا تقویٰ ہی اسے صلح پر آمادہ کرسکتا ہے خوف خدا قوانین شرع کی پابندی کا احساس دلاتا ہے۔ کفر ، شرک ، نفاق اور معاصی سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر انسان میں فسق و فجور ہوگا تو شر و فسادکو فرو غ حاصل ہوگا ۔ اس لیے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو لعلکم ترحمون تا کہ تم پر رحم کیا جائے تم احکام الٰہی کی پابندی کرو گے اس کا خوب رکھو گے تو وہ بھی تم پر رحم فرمائے گا ۔ ورنہ نتیجہ ظاہر ہے۔
Top