Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 22
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ١ۖۗ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَا١ۚ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّ فِيْهَا : بیشک اس میں قَوْمًا : ایک قوم جَبَّارِيْنَ : زبردست وَاِنَّا : اور ہم بیشک لَنْ نَّدْخُلَهَا : ہرگز داخل نہ ہوں گے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنْهَا : اس سے فَاِنْ : پھر اگر يَّخْرُجُوْا : وہ نکلے مِنْهَا : اس سے فَاِنَّا : تو ہم ضرور دٰخِلُوْنَ : داخل ہوں گے
وہ کہنے لگے موسیٰ وہاں تو بڑے زبردست لوگ (رہتے) ہیں اور جب تک وہ اس سر زمین سے نکل نہ جائیں تم وہاں جا نہیں سکتے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم جا داخل ہونگے۔
لفظ جبار کی تشریح قول باری ہے (ان فیھا قوما جبارین۔ وہاں تو بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں) ایک قول یہ ہے کہ لفظ جبار راحبار علی الامر “ کسی بات پر مجبور کرنا) سے نکلا ہے۔ ٹوٹی ہوئی ہڈی پر پلستر چڑھانے کو ” جبر العظم “ اس لئے کہتے ہیں کہ پلستر یا جبیرہ کے ذریعے اس ہڈی کو ٹھیک ہوجانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ خون رائیگاں جانے اور خونبہا لازم نہ ہونے کو جبار کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس کے اندر بھی زبردستی کے معنی پائے جاتے ہیں۔ لمبے کھجور کے درخت کو جس تک ہاتھ نہ پہنچ سکے جبارۃ کہا جاتا ہے اس لئے کہ وہ بھی جبار انسان کی طرح ہوتا ہے۔ جبار انسان اس شخص کو کہا جاتا ہے کہ جو لوگوں کو اپنے مقصد اور مطلب پر مجبور کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ جبار مدح کی صفت ہے اور غیر اللہ کے لئے صفت ذم ہے۔ اس لئے کہ غیر اللہ ایسی چیز کی بنا پر بڑا بنتا ہے جو اس کی اپنی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی دی ہوئی ہوتی ہے، جب عظمت اور بڑائی صرف اللہ کی ذات کے لئے ہے وہی جبار اور صاحب عظمت ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جب اللہ کے لئے جبار کی صفت کا اطلاق کیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے اللہ تعالیٰ عارف باللہ کو اپنی ذات بےہمتا کی تعظیم کی دعوت دیتا ہے۔ جبار اور قہار میں یہ فرق ہے کہ قہار کے اندر اس شخص پر غلبہ پالینے کے معنی پائے جاتے ہیں جو اللہ کی نافرمانی کر کے اس کے ساتھ دشمنی کرتا ہو یا دشمنی کرنے والے کے حکم میں ہو۔
Top