Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 22
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ١ۖۗ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَا١ۚ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّ فِيْهَا : بیشک اس میں قَوْمًا : ایک قوم جَبَّارِيْنَ : زبردست وَاِنَّا : اور ہم بیشک لَنْ نَّدْخُلَهَا : ہرگز داخل نہ ہوں گے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنْهَا : اس سے فَاِنْ : پھر اگر يَّخْرُجُوْا : وہ نکلے مِنْهَا : اس سے فَاِنَّا : تو ہم ضرور دٰخِلُوْنَ : داخل ہوں گے
بولے اے موسیٰ وہاں ایک قوم ہے زبردست اور ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے یہاں تک کہ وہ نکل جاویں اس میں سے پھر اگر وہ نکل جاویں گے اس میں سے تو ہم ضرور داخل ہونگے
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اس سے پہلے آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بذریعہ موسیٰ ؑ قوم عمالقہ سے جہاد کرکے ملک شام فتح کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی دی تھی کہ ملک شام کی زمین اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے لکھ دی ہے۔ اس لئے کہ فتح یقینی ہے۔
اس آیت متذکرہ میں اس کا بیان ہے کہ اس کے باوجود بنی اسرائیل نے اپنی معروف سرکشی اور کج طبعی کی وجہ سے اس حکم کو بھی تسلیم نہ کیا۔ بلکہ موسیٰ ؑ سے کہا کہ اے موسیٰ اس ملک پر تو بڑے زبردست قوی لوگوں کا قبضہ ہے۔ ہم تو اس زمین میں اس وقت تک داخل نہ ہوں گے جب تک وہ لوگ وہاں قابض ہیں۔ ہاں وہ کہیں اور چلے جاویں تو بیشک ہم وہاں جاسکتے ہیں۔
واقعہ اس کا جو ائمہ تفسیر حضرت عبداللہ بن عباس اور عکرمہ اور علی بن ابی طلحہ وغیرہ سے منقول ہے یہ ہے کہ اس وقت ملک شام اور بیت المقدس پر قوم عمالقہ کا قبضہ تھا جو قوم عاد کی کوئی شاخ اور بڑے ڈیل ڈول اور ہیبت ناک قدوقامت کے لوگ تھے۔ جن سے جہاد کرکے بیت المقدس فتح کرنے کا حکم حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کو ملا تھا۔
حضرت موسیٰ ؑ حکم خدا وندی کی تعمیل کے لئے اپنی قوم بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔ جانا بیت المقدس پر تھا۔ جب نہر اردن سے پار ہو کر دنیا کے قدیم ترین شہر اریحا پر پہنچے، تو یہاں قیام فرمایا۔ اور بنی اسرائیل کے انتظام کے لئے بارہ سرداروں کا انتخاب کرنا قرآن کریم کی پچھلی آیات میں بیان ہوچکا ہے۔ ان سرداروں کو آگے بھیجا تاکہ وہ ان لوگوں کے حالات اور محاذ جنگ کی کیفیات معلوم کرکے آئیں جو بیت المقدس پر قابض ہیں اور جن سے جہاد کرنے کا حکم ملا ہے۔ یہ حضرات بیت المقدس پہنچے تو شہر سے باہر ہی قوم عمالقہ کا کوئی آدمی مل گیا۔ اور وہ اکیلا ان سب کو گرفتار کرکے لے گیا۔ اور اپنے بادشاہ کے سامنے پیش کیا کہ یہ لوگ ہم سے جنگ کرنے کے قصد سے آئے ہیں۔ شاہی دربار میں مشورہ ہوا کہ ان سب کو قتل کردیا جائے یا کوئی دوسری سزا دی جائے۔ بالآخر رائے اس پر ٹھہری کہ ان کو آزاد کردیں تاکہ یہ اپنی قوم میں جا کر عمالقہ کی قوت و شوکت کے ایسے عینی گواہ ثابت ہوں کہ کبھی ان کی طرف رخ کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لائیں۔
اس موقع پر اکثر کتب تفسیر میں اسرائیلی روایات کی لمبی چوڑی کہانیاں درج ہیں جن میں اس ملنے والے شخص کا نام عوج بن عنیق بتلایا ہے۔ اور اس کی بےپناہ قدوقامت اور قوت و طاقت کو ایسی مبالغہ آمیزی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کسی سمجھ دار آدمی کو اس کا نقل کرنا بھی بھاری ہے۔
امام تفسیر ابن کثیر نے فرمایا کہ عوج بن عنق کے جو قصے ان اسرائیلی روایات میں مذکور ہیں نہ عقل ان کو قبول کرسکتی ہے اور نہ شرع میں ان کا کوئی جواز ہے۔ بلکہ یہ سب کذب و افترا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ قوم عمالقہ کے لوگ چونکہ قوم عاد کے بقایا ہیں جن کے ہیبت ناک قدوقامت کا خود قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔ اس قوم کا ڈیل ڈول اور قوت و طاقت ضرب المثل تھی۔ ان کا ایک آدمی قوم بنی اسرائیل کے بارہ آدمیوں کو گرفتار کرکے لے جانے پر قادر ہوگیا۔
بہرحال بنی اسرائیل کے بارہ سردار عمالقہ کی قید سے رہا ہو کر اپنی قوم کے پاس مقام اریحا پر پہنچے اور حضرت موسیٰ ؑ سے اس عیجب و غریب قوم اور اس کی ناقابل قیاس قوت و شوکت کا ذکر کیا۔ حضرت موسیٰ ؑ کے قلب پر تو ان سب باتوں کا ذرہ برابر بھی اثر نہ ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی فتح و کامیابی کی بشارت سنا دی تھی۔
بقول اکبر
مجھ کو بےدل کر دے ایسا کون ہے
یاد مجھ کو انتم الاعلون ہے
حضرت موسیٰ ؑ تو ان کی قوت و شوکت کا حال سن کر اپنی جگہ کوہ استقامت بنے ہوئے اقدام جہاد کی فکر میں لگے رہے۔ مگر خطرہ یہ ہوگیا کہ بنی اسرائیل کو اگر حریف مقابل کی اس بےپناہ طاقت کا علم ہوگیا تو یہ لوگ پھسل جائیں گے۔ اس لیے ان بارہ سرداروں کو ہدایت فرمائی کہ قوم عمالقہ کے یہ حالات بنی اسرائیل کو ہرگز نہ بتائیں، بلکہ راز رکھیں۔ مگر ہوا یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے دوستوں سے خفیہ طور پر اس کا تذکرہ کردیا۔ صرف دو آدمی جن میں سے ایک نام یوشع بن نون اور دوسرے کا لب بن یوقنا تھا۔ انہوں نے موسوی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اس راز کو کسی پر ظاہر نہیں کیا۔
اور (ظاہر ہے کہ بارہ میں سے جب دس نے راز فاش کردیا) تو اس کا پھیل جانا قدرتی امر تھا۔ بنی اسرائیل میں جب ان حالات کی خبریں شائع ہونے لگیں تو لگے رونے، پیٹنے اور کہنے لگے کہ اس سے تو اچھا یہی تھا کہ فرعون کی طرح ہم بھی غرق دریا ہوجاتے۔ وہاں سے بچا لا کر ہمیں مروایا جا رہا ہے۔ انہیں حالات میں بنی اسرائیل نے یہ الفاظ کہے
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ڰ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْهَا ۚ یعنی اے موسیٰ اس شہر میں تو بڑی زبردست قوم آباد ہے جن کا مقابلہ ہم سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے جب تک وہ لوگ آباد ہیں موجود ہیں ہم وہاں جانے کا نام نہ لیں گے۔ اگلی آیت میں ہے کہ وہ شخص جو ڈرنے والے تھے اور جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا تھا انہوں نے بنی اسرائیل کی یہ گفتگو سن کر بطور نصیحت ان کو کہا کہ تم پہلے ہی کیوں ڈرے مرتے ہو، ذرا قدم اٹھا کر شہر بیت المقدس کے دروازہ تک تو چلو۔ ہمیں یقین ہے کہ تمہارا اتنا ہی عمل تمہاری فتح کا سبب بن جائے گا۔ اور دروازہ بیت المقدس میں داخل ہوتے ہی تم غالب ہوجاؤ گے۔ اور دشمن شکست کھا کر بھاگ جائے گا۔ یہ دو شخص جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک وہ ہی بارہ میں سے دو سردار ہیں جنہوں نے حضرت موسیٰ ؑ کی ہدایت پر عمل پیرا ہو کر عمالقہ کا پورا حال بنی اسرائیل کو نہ بتایا تھا۔ یعنی یوشع بن نون اور کالب بن یوقنا۔
Top