Ashraf-ul-Hawashi - Al-Maaida : 22
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ١ۖۗ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَا١ۚ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّ فِيْهَا : بیشک اس میں قَوْمًا : ایک قوم جَبَّارِيْنَ : زبردست وَاِنَّا : اور ہم بیشک لَنْ نَّدْخُلَهَا : ہرگز داخل نہ ہوں گے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنْهَا : اس سے فَاِنْ : پھر اگر يَّخْرُجُوْا : وہ نکلے مِنْهَا : اس سے فَاِنَّا : تو ہم ضرور دٰخِلُوْنَ : داخل ہوں گے
وہ کہنے لگے اے موسیٰ وہاں تو بڑے زبر دست لوگ رہتے ہیں یعنی لمبے چو ڑے بڑے تن و تو ش کے6 اور ہم تو ہرگز وہاں جانے والے نہیں جب تک وہاں سے نکل نہ جائیں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو بیشک ہم جا داخل ہوں گے7
6 قوت ایمانی کے کمزور ہونے کی وجہ سے اپنی مرعبیت کا اظہار کر رہے ہیں ؎( یہ اطلاع فارس کے مقام پر پیش کی گئی) لیکن جس انداز سے بعض تفسیری روایات میں ان لوگوں (جبارین کا نقشہ پیش کیا گیا ہے وہ تمام اسرائیلی روایات ہیں جن کو ایک معمولی عقل کا انسان بھی تسلیم نہیں کرسکتا خصوصا عوج بن عنق کا فسانہ جس کے متعلق حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ سب من گھڑت افسانے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ حدیث میں ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کا قد ساٹھ ہاتھ تھا اور اس کے بعد سے لوگ برابر گھٹ رہے ہیں۔ (بخاری مسلم پھر عوج بن عنق کا قد تین ہزار تین سو تنتیس ہاتھ کیسے ہوسکتا ہے (ابن کثیر)7 یعنی ان کو آپ معجزانہ طور پر اس سر زمین سے نکال دیں تو ہم جانے کے لیے تیار ہیں۔
Top