Tafseer-e-Baghwi - Al-Maaida : 22
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ١ۖۗ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَا١ۚ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّ فِيْهَا : بیشک اس میں قَوْمًا : ایک قوم جَبَّارِيْنَ : زبردست وَاِنَّا : اور ہم بیشک لَنْ نَّدْخُلَهَا : ہرگز داخل نہ ہوں گے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنْهَا : اس سے فَاِنْ : پھر اگر يَّخْرُجُوْا : وہ نکلے مِنْهَا : اس سے فَاِنَّا : تو ہم ضرور دٰخِلُوْنَ : داخل ہوں گے
وہ کہنے لگے موسیٰ وہاں تو بڑے زبردست لوگ (رہتے) ہیں اور جب تک وہ اس سر زمین سے نکل نہ جائیں تم وہاں جا نہیں سکتے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم جا داخل ہونگے۔
آیت نمبر 22 تفسیر : (قالو یموسیٰ ان فیھا قوما جبارین) (بولے اے موسیٰ ! وہاں ایک قوم ہے زبردست) اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب وہ سردار جاسوسی کرکے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور اپنے مشاہدہ کی خبردی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ان کی خبر کو چھپالو اور لشکر میں کسی کو خبر نہ دو یہ لوگ بزدل پڑجائیں گے تو ان سرداروں میں سے ہر ایک نے اپنے قریبی دوستوں اور چچا زاد بھائیوں کو خبر کردی۔ صرف دو آدمیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا۔ ان میں سے ایک یوشع بن نون بن افرائیم بن یوسف (علیہم السلام) اور دوسرے کالب بن یوقنا موسیٰ (علیہ السلام) کے بہنوئی تھے جو حضرت مریم موسیٰ علیہ اسلام کی بہن کے خاوند تھے اور یہود کے قبیلوں میں سے حقیقی سردار یہی دو تھے۔ اب جب بنی اسرائیل نے یہ بات جان لی تو دھاڑیں مار کر رونے لگے کہ کاش ہم مصر میں ہوتے ہم اس جنگل میں مرجائیں گے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی زمین میں داخل نہیں کریںے تو ہماری عورتیں ، اولاد، مال ان کے لیے مال غنیمت بن جائیں گے تو ہر آدمی اپنے ساتھی کو کہنے لگا کہ آئو ہم مصر کی طرف لوٹ جائیں تو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول کی خبردی ہے کہ (انہوں نے کہا اے موسیٰ وہاں ایک قوم ہے زبردست (قالو یموسیٰ ان فیھا قوما جبارین وانا لن ندخلھا حتیٰ یخرجوا منھا فان یخرجوا منھا فانا دخلون) اور ہم ہرگز وہاں نہ جاویں گے یہاں تک کہ وہ نکل جائیں اس میں سے پھر اگر وہ نکل جاویں گے اس میں سے تو ہم ضرور داخل ہوں گے) جبار کا اصل معنی ایسا بڑا جو اپنے غلبہ کی وجہ سے دوسرے کو روکنے والا ہو۔ جب کھجور کا درخت اتنا لمبا ہو کہ اس تک ہاتھ کسی طرح نہ پہنچ سکے تو اس کو کہتے ہیں ” نخلۃ جبارۃ “ اس قوم کو جبارین بھی اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ان کے قد بہت بڑے اور جسم بہت مضبوط تھے اور یہ قوم عمالقہ میں سے تھے اور قوم عاد کے بچے ہوئے افراد تھے۔ جب بنو اسرائیل نے یہ بات کی اور مصر جانے کا ارادہ کیا تو موسیٰ ہارون (علیہم السلام) فوراً سجدہ میں چلے گئے اور یوشع و کالب نے اپنے کپڑے پھاڑ دیئے اور انہی دونوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبردی ہے اپنے آئندہ قول میں ہے۔
Top