Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 22
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّ فِیْهَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ١ۖۗ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰى یَخْرُجُوْا مِنْهَا١ۚ فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّ فِيْهَا : بیشک اس میں قَوْمًا : ایک قوم جَبَّارِيْنَ : زبردست وَاِنَّا : اور ہم بیشک لَنْ نَّدْخُلَهَا : ہرگز داخل نہ ہوں گے حَتّٰي : یہانتک کہ يَخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنْهَا : اس سے فَاِنْ : پھر اگر يَّخْرُجُوْا : وہ نکلے مِنْهَا : اس سے فَاِنَّا : تو ہم ضرور دٰخِلُوْنَ : داخل ہوں گے
وہ بولے کہ اس میں تو بڑے زور آور لوگ ہیں۔ ہم اس میں نہیں داخل ہونے کے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائی۔ اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہوں گے
قَالُوْا يٰمُوْسٰٓى اِنَّ فِيْهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ ڰ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَا حَتّٰي يَخْرُجُوْا مِنْهَا ۚ فَاِنْ يَّخْرُجُوْا مِنْهَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۔ بنی اسرائیل کی مرعوبیت : " قوماً جبارین " جبار کے معنی قدر آور، زور آور، تگڑے اور طاقت ور کے ہیں۔ عربی میں جبار کھجور کے ان درختوں کو بھی کہتے ہیں بہت اونچے ہوں۔ تورات میں ان کی تصویر ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے۔ " وہ ملک جس کا حال دریافت کرنے کو ہم اس میں سے گزرے ایک ایسا ملک ہے جو اپنے باشندوں کو کھا جاتا ہے اور وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب قد آور ہیں اور ہواں ہم نے بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے (گنتی : 13۔ 33) یہ اس رپورٹ کے الفاظ ہیں ج تفتیشی مہم کے ارکان نے فلسطین کے باشندوں سے متعلق دی۔ اس میں بنی عناق کے لیے " جبار " ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ لفظ اسی زمانے سے چلا آرہا ہے جو بعینہ قرآن میں بھی استعمال ہوا۔ عربی اور عبرانی دونوں قریب المخرج زبانیں ہیں۔ اسوجہ سے دونوں میں بہت سے مادے اور الفاظ مشترک ہیں۔ یہ حضرت موسیٰ کی اس تقریر کا جو اوپر مذکور ہوئی، بنی اسرائیل کی طرف سے جواب ہے کہ جب اس ملک پر ایسے جبار اور قدآور لوگ قابض ہیں تو ہم تو ان کی تلواروں کا لقمہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ البتہ اگر قدرت کے کسی ایسے معجزے کے ذریعے سے، جیسے معجزے تم اب تک دکھاتے رہے ہو، یہ اس علاقے سے نکل جائیں تو بیشک ہم اس علاقے پر قابض ہونے کے لیے تیار ہیں۔
Top