Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠   ۧ
اَفَحُكْمَ : کیا حکم الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَبْغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَمَنْ : اور کس اَحْسَنُ : بہترین مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ حُكْمًا : حکم لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
کیا یہ زمانہ جاہلیت کے حکم کے خواہشمند ہیں ؟ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لیے خدا سے اچھا حکم کس کا ہے ؟
قول باری ہے افحکم الجاھلیۃ یبغون تو پھر کیا جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اس کی دو طرح تفسیر کی گئی ہے ۔ ایک تو یہ کہ اس میں یہود کو خطاب ہے اس لیے کہ ان کا طریق کار یہ تھا کہ جب کمزوروں پر کوئی فیصلہ واجب ہوتا تو اسے نافذکر دیتے اور جب امیروں پر کسی فیصلے کا اطلاق ہوتا تو اسے نافذ کرنے سے پہلوتہی کرلیتے۔ آیت میں ان سے یہ کہا گیا کہ تم اہل کتاب ہونے کے باوجود بت پرستوں کا فیصلہ چاہتے ہو ایک قول ہے کہ اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو اللہ کے فیصلے سے نکل کر جاہلیت کے فیصلے کا خواہش مند ہوتا ہے اور یہ بات اس کے ان اقدامات پر مشتمل ہوگی جو وہ جہالت اور بے علمی کے طور پر اٹھاتا ہے۔ قول باری ہے من احسن من اللہ حکما ً لقوم یوقنون حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ آیت میں یہ بتایا گیا کہ اللہ کے فیصلے حق و انصاف پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں جانبداری نہیں ہوتی۔ یہ بھی کہنا درست ہے کہ ایک فیصلہ بہ نسبت دوسرے فیصلے کے افضل اور احسن ہوتا ہے جس طرح کسی کو منصوص طریقے سے دو فیصلوں کے درمیان اختیار دے دیا جائے اور یہ معلوم ہو کہ ان میں سے ایک فیصلہ دوسرے سے افضل ہے تو جو افضل ہوگا وہ احسن ہوگا ۔ اسی طرح ایک مجتہد کبھی ایسا حکم لگاتا ہے جس کی یہ نسبت دوسرا حکم اولیٰ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یا تو مجتہد میں کوتاہ نظری ہوتی ہے یا وہ ایسے شخص کی تقلید کرلیتا ہے جس سے خود اس حکم میں کوتاہی سر زد ہوچکی ہو۔
Top