Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠   ۧ
اَفَحُكْمَ : کیا حکم الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَبْغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَمَنْ : اور کس اَحْسَنُ : بہترین مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ حُكْمًا : حکم لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
کیا یہ زمانہٴ جاہلیت کے حکم کے خواہش مند ہیں؟ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لیے خدا سے اچھا حکم کس کا ہے؟
افحکم الجاہلیۃ یبغون کیا پھر یہ لوگ دور جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ جاہلیت سے مراد ہے جاہلیت کے دور کا مذہب۔ یعنی اپنی خواہشات پر چلنا۔ بعض اہل روایت نے لکھا ہے کہ اس آیت کا نزول بنی قریظہ اور بنی نضیر کے حق میں ہوا۔ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی تھی کہ ان کا فیصلہ وہی کیا جائے جو اہل جاہلیت (دور اسلامی سے پہلے کے لوگ) کرتے تھے کہ جدا جدا قبائل کے مقتولوں میں نیچ اونچ کا لحاظ رکھتے اور ایک قبیلہ کے مقتول کو دوسرے قبیلے کے مقتول سے (قصاص اور دیت کے لحاظ سے) بڑا چھوٹا قرار دیتے تھے۔ آیت میں استفہام انکاری ہے یعنی (حکم جاہلیت کی طلب نہ کرنی چاہئے) آپ ایسا نہ کریں۔ ومن احسن من اللہ حکما لقوم یوقنون اور فیصلہ کرنے میں اللہ سے کون اچھا ہے۔ ایمان رکھنے والوں کے نزدیک۔ لِقَوْمٍ میں لام بیان کا ہے یعنی اہل ایمان ہی غور و فکر کرتے ہیں اور سوچ سمجھ کر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ سے بہتر اور برتر حکم والا اور کوئی نہیں ہوسکتا (مخلوق کا علم ناقص اور اللہ کا علم کامل ہے۔ مخلوق کے ساتھ جذبات اور میلانات لگے ہوئے ہیں اس لئے اس کے قائم کردہ قوانین اور جاری کردہ احکام میں بھی ماحول ‘ رسم و رواج ‘ قومیت ‘ وطنیت ‘ نسلیت اور لسانیت وغیرہ کے جذبہ کا لگاؤ ضروری ہے۔ لیکن اللہ ہر جذبہ سے پاک ہے۔ اس لئے اس کا بنایا ہوا قانون اور دیا ہوا حکم علم و عدل پر مبنی ہوتا ہے) ۔ ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس کے حوالہ سے لکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول مسلمان ہوگیا تھا۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ میرے اور قبائل بنی قریظہ و بنی نضیر کے درمیان معاہدہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف چکر چل جائے (اور یہودی غالب آجائیں) یہ سوچ کر وہ اسلام سے پھر گیا اور کافر ہوگیا۔ حضرت عبادہ بن صامت نے فرمایا میں بنی قریظہ اور بنی نضیر کے معاہدہ سے اللہ کے سامنے اظہار بیزاری کرتا ہوں۔ اب میرا تعاون ‘ اللہ ‘ اللہ کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ اس پر آیت یایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اور اِنَّمَا وَلِیْکُمُ اللّٰہُاور لَوْکَانُوْا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَالنَّبِی وَمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَا اتَّخَذْتُمْ اَوْلِیَا نازل ہوئی۔ ابن اسحاق ‘ ابن جریر ‘ ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت عبادہ بن صامت کی روایت سے بیان کیا ہے کہ جب بنی قینقاع کے یہودیوں میں باہم جنگ ہوئی تو (معاہدہ کے بموجب) عبداللہ بن ابی سلول انہی کے معاملہ میں الجھا رہا اور انہی کی طرف سے کھڑا ہوگیا لیکن عبادہ بن صامت رسول اللہ ﷺ کی طرف آگئے اور عرض کیا کہ میں ان کے معاہدہ سے دست بردار ہوتا ہوں اور اللہ کے اور اس کے رسول کے سامنے اظہار بیزاری کرتا ہوں۔ آپ قبیلہ بنی عوف بن خزرجی کے ایک فرد تھے (یعنی خزرجی تھے) اور آپ کا یہودیوں سے ایسا ہی معاہدہ تھا جیسا عبداللہ بن ابی کا تھا لیکن آپ نے کافروں کے تعاون و مدد سے اظہار بیزاری کردیا۔ آپ کے اور عبداللہ بن ابی کے متعلق آیت ذیل کا نزول ہوا۔
Top