Madarik-ut-Tanzil - Al-Maaida : 50
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ١ؕ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ۠   ۧ
اَفَحُكْمَ : کیا حکم الْجَاهِلِيَّةِ : جاہلیت يَبْغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَمَنْ : اور کس اَحْسَنُ : بہترین مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ حُكْمًا : حکم لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
کیا یہ زمانہ جاہلیت کے حکم کے خواہشمند ہیں ؟ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لیے خدا سے اچھا حکم کس کا ہے ؟
تمام کفر ایک ملّت ہے : آیت 50 : اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ (یہ لوگ کیا زمانہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں) یبغون یہ یطلبون کے معنی میں ہے۔ قراءت : شامی نے تبغون پڑھا ہے اس میں بنی نضیر کو خطاب کیا گیا کیونکہ وہ بنو قریظہ پر اپنی فضیلت جتلاتے تھے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو فرمایا القتلی سوائ۔ مقتول برابر ہیں تو بنی نضیر کہنے لگے ہم اس پر رضا مند نہیں اس پر یہ آیت اتری حضرت طائوس (رح) سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی آدمی اپنے بعض لڑکوں کو بعض پر فضیلت دے (تقسمر وغیرہ میں) تو انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ نحوی تحقیق : نحو : یبغون کی وجہ سے افحکم الجاہلیۃ منصوب ہے۔ وَمَنْ اَحْسَنُ (اور کون اچھا ہوگا) یہ مبتداء اور خبر ہے یہ استفہام ہے جو نفی کے معنی میں ہے تقدیر عبارت یہ ہے لا احدٌ احسن۔ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا (اللہ تعالیٰ سے فیصلہ میں) یہ تمیز ہے۔ لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (یقین رکھنے والے لوگوں کیلئے) اس میں لام بیانیہ ہے جیسا کہ ہیت لک۔ سورة یوسف آیت 23 میں لام۔ یعنی یہ خطاب اور استفہام یقین کرنے والی قوم کے لئے ہے۔ اس لئے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو کہ واضح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی عدل والا نہیں اور نہ اس سے بہتر کوئی حکم دینے والا ہے ابوعلی نے کہا کہ لام۔ یہاں عند کے معنی میں ہے کیونکہ یہ دونوں قریب المعنی ہیں۔
Top