Ahkam-ul-Quran - At-Tawba : 34
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنَّ : بیشک كَثِيْرًا : بہت مِّنَ : سے الْاَحْبَارِ : علما وَالرُّهْبَانِ : اور راہب (درویش لَيَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں اَمْوَالَ : مال (جمع) النَّاسِ : لوگ (جمع) بِالْبَاطِلِ : ناحق طور پر وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَكْنِزُوْنَ : جمع کر کے رکھتے ہیں الذَّهَبَ : سونا وَالْفِضَّةَ : اور چاندی وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا : اور وہ اسے خرچ نہیں کرتے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَبَشِّرْهُمْ : سو انہیں خوشخبری دو بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
مومنو ! (اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انکو اس دن کے عذاب الیم کی خبر سنا دو ۔
اخبار و رہبان کی اکثریت لوگوں کے مال باطل طریقے سے ہڑپ کرتی ہے قول باری ہے (یایھا الذین اٰمنوا ان کثیراً من الاحبار والرھبان لیاکلون اموال الناس باباطل اے ایمان لانے والو ! ان اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں) باطل طریقوں سے مال کھانے کا مفہوم یہ ہے کہ مال پر ناجائز طریقوں سے قبضہ کرلیا جائے جن سے مروی ہے کہ یہ لوگ فیصے کرنے میں رشوتیں لیتے تھے۔ یہاں صرف اکل یعنی کھانے کا ذکر ہوا ہے لیکن مراد تمام منافع و فوائد اور تصرفات ہیں چونکہ مال کا سب سے بڑا فائدہ اکل و شرب کی صورت میں حاصل ہوتا ہے اس لئے اس کا ذکر ہوا۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے (لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل۔ آپس میں باطل طریقوں سے ایک دوسرے کا مال نہ کھائو) اس سے منافع کی تمام صورتیں مراد ہیں یا جس طرح یہ قول باری ہے (ولا تاکلوا اموالھم۔ ان کے مال نہ کھائو) نیز (ان الذین یاکلون اموال الیتامیٰ ۔ جو لوگ یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں) وغیرہا۔ انفاق کلی مراد ہے یا بعض ؟ قول باری ہے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقو نھا فی سبیل اللہ جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ہیں ) تا آخر آیت۔ ظاہر آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جائے اس لئے وعید اس شخص کو لاحق ہورہی ہے جو سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا۔ اس لئے کہ قول باری ہے (ولا ینفقونھا) اللہ نے یہ نہیں فرمایا : ” ولا ینفقون منھا۔ (وہ اپنے مال میں سے خرچ نہیں کرتے) اگر یہ کہا جائے کہ سارا مال خرچ کردینا اگر مراد ہوتا تو آیت کے الفاظ یہ ہوتے۔ ” ولا ینفقونھا (اور وہ سونا چاندی خرچ نہیں کرتے) تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ آیت کے الفاظ اس طرح نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ کلام ایسے امر کی طرف راجع ہے جو پورا مال خرچ کردینے کے مفہوم کا مدلول ہے گویا یوں ارشاد ہوا ” ولاینفقون الکنوز “ (اور اپنے خزانوں یعنی جمع شدہ اموال کو خرچ نہیں کرتے) دوسری توجیہ یہ ہے کہ ایجاذ کے طور پر ایک چیز یعنی چاندی کے ذکر کو سونے کے ذکر کے لئے کافی سمجھ لیا گیا۔ جس طرح یہ قول باری ہے (واذا راوتجارۃ اولھون انفضوا الیھا۔ اور جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں) یہاں ایجاز کے طور پر صرف تجارت کا ذکر ہوا جس کی طرف لوگ دوڑ پڑتے تھے۔ شاعر کا قول ہے۔ نحن بما عندا وانت بما عندک راض والرای مختلف ہمارے پاس جو چیز ہے اس پر ہم راضی ہیں اور جو تمہارے پاس جو کچھ ہے اس پر تم راضی ہو، ہمارے تمارے درمیان صرف آراء کا اختلاف ہے۔ یہاں شاعر نے ایجاز کے طور پر ” راض “ کا لفظ ایک دفعہ بیان کیا جس کا تعلق انت کی ضمیر کے ساتھ ہے جبکہ مفہوم کے لحاظ سے اس کا تعلق نحن کے ساتھ بھی ہے لیکن الفاظ میں مذکور نہیں ہے اس لئے معنی کے لحاظ سے یہاں ’ رضوان ‘ کا لفظ بھی موجود ہے۔ قول باری میں انفاق کا تعلق سونا اور چاندی دونوں سے ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس کا رجوع صرف ایک کی طرف ہوتا دوسرے کی طرف نہ ہوتا تو اس صورت میں ان میں سے ایک خبر سے خالی رہ جاتا اور پھر یہ ایک منقطع کلام بن جاتا جو بےمعنی ہوتا۔ اس لئے کہ قول باری (والذین یکنزون الذھب والفضۃ) کو خبر کی ضرورت ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ آیت کے صرف اتنے حصے پر اقتصار کرلینا کسی طرح درست نہیں ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ ایک اور حصہ بھی چاہیے جو خبر کی جگہ لے سکے۔ ظاہر آیت کے معنوں میں کئی روایات منقول ہیں۔ موسیٰ بن عبیدہ نے بیان کیا ہے کہ انہیں عمران بن ابی انس نے مالک بن اوس بن الحدثان سے اور انہوں نے حضرت ابوذر ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اونٹوں میں زکوٰۃ ہے جو شخص دینار یا درہم یا سونا چاندی جمع کرتا ہے جسے وہ کسی قرض خواہ کے قرض کی ادائیگی کے لئے تیار نہیں رکھتا اور نہ ہی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو وہ لوہا تیار کرتا ہے جس کے ذریعے قیامت کے دن اسے داغا جائے گا۔ “ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : حضور ﷺ کے اس ارشاد پر غور فرمائیے۔ کیونکہ لوگوں کے پاس ان اموال کی ؟ ؟ ہوگئی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابو ذر ؓ نے فرمایا : کیا تم قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھتے (والذی یکنزون لذھب والفضۃ) تاآخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر حدیث اس امر کی مقتضی ہے کہ اونٹوں میں زکوٰۃ ہے سارے اونٹ دینا مراد نہیں ہے۔ صرف فرض شدہ زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے لیکن سونا اور چاندی میں سارے کا سارا خرچ کردینا ضروری ہے۔ حضرت ابوذر ؓ کا مسلک یہی تھا کہ سونا چاندی ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے۔ محمد بن عمر ؓ نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : مجھے یہ بات پسند نہیں کہ احد پہاڑ کے برابر میرے پاس سونا ہو اور تین دن گزر جانے کے بعد اس میں سے کچھ بھی میرے پاس باقی رہ جائے الا یہ کہ مجھے صدقہ قبول کرنے والا کوئی نہ ملے یا کہ میں اسے اپنا قرض اتارنے کے لئے کچھ چھوڑوں۔ “ اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی ذات کیلئے سونا چاندی ذخیرہ کرنا پسند نہیں کیا بلکہ اسے خرچ کردینا پسند فرمایا لیکن آپ ﷺ نے خرچ نہ کرنے والے کے لئے کسی وعید کا ذکر نہیں کیا۔ قتادہ نے شہر بن حوشب سے اور انہوں نے حضرت ابو امامہ سے روایت کی ہے کہ اہل صفہ میں سے ایک صحابی کا انتقال ہوگیا۔ اس کے پاس سے ایک دینا برآمد ہوا تو حضور ﷺ نے فرمایا : اس کے ذریعہ قیامت میں اسے داغا جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کو شاید پتہ چل گیا ہو کہ مرنے والے نے یہ دینار حاصل کیا تھا حالانکہ انہیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ جس طرح حضور ﷺ سے یہ مروی ہے کہ جس شخص نے مالدار ہوتے ہوئے کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا اس نے گویا اپنے لئے جہنم کے انگاروں کا ڈھیر لگالیا “ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ اس کی مال داری کی کیا حد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کی حد یہ ہے کہ اس کے اہل خانہ کے پاس اتنا مال موجود ہو جس سے وہ اپنے اہل و عیال کے لئے صبح و شام کی دو وقت خوراک کا انتظام کرسکتا ہو۔ “ یہ اس وقت کی بات تھی جب لوگ انتہائی ضرورت مند ہوتے تھے اور نہایت عزت سے زندگی گزارتے تھے جس کی بنا پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور مدد ان پر واجب تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے کہ سارا سونا چاندی خرچ کردینے کا حکم ہے۔ قول باری (خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم بھا۔ آپ ان کے اموال میں سے صدہق لیں جس کے ذریعے آپ انہیں پاک کردیں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ نقل مستفیض کی بنا پر حضور ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے دو سو درہم میں پانچ درہم اور بیس دینار میں نصف دینار زکوٰۃ کے طور پر واجب کردیا تھا۔ جس طرح آپ نے مویشیوں میں زکوٰۃ کے وجوب کا حکم دیا تھا اور ساے مویشی اللہ کی راہ میں دے دینا واجب قرار نہیں دیا تھا۔ اگر سارے کا سارا سونا اور چاندی خرچ کرنیا واجب ہوتا تو پھر نصاب مقرر کرنے نیز اس نصاب پر زکوٰۃ لازم کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ نیز صحابہ کرام میں ایسے حضرات بھی موجود تھے جو بڑے خوشحال تھے اور جن کے پاس وافر مقدار میں مال و دولت موجود تھی۔ مثلاً حضرت عثمان ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ وغیرہما۔ حضور ﷺ کو ان کی اس دولت مندی کا علم بھی تھا لیکن آپ ﷺ نے انہیں سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردینے کا حکم نہیں دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سارے کا سارا سونا چاندی خرچ کردینا واجب نہیں ہے۔ بلکہ صرف فرض زکوٰۃ نکالنا واجب ہے الا یہ کہ کوئی ایسی صورت پیش آجائے جو ہمدردی اور خبرگیری نیز مدد کو واجب کردیتی ہو مثلاً بھوک کے ہاتھوں مجبور انسان یا افلاس کا مارا ہوا تن بدن پر کپڑے سے عاری شخص آجائے یا کسی بےگورو کفن میت کی تجہیز و تکفین کا مسئلہ سامنے آجائے تو ان صورتوں میں ایک شخص کو اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہیے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد اسے ان صورتوں میں پیسہ خرچ کرنے سے ہاتھ اٹھالینا نہیں چاہیے۔ شریک نے ابو حمزہ سے، انہوں نے عامر سے، انہوں نے حضرت فاطمہ بنت قیس سے اور انہوں ن ے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا (فی السمال حق سوی الزکوٰۃ۔ زکوٰۃ کے سوا بھی مال میں حق ہے) اس موقع پر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی (لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب۔ نیکی یہ نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو) تا اخر آیت۔ قول باری (ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ) میں یہ احتمال ہے کہ اس سے ولاینفقون منھا۔ مراد ہو، حرف من حذف کردیا گیا ہو لیکن معنی کے لحاظ سے وہ مراد ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مراد کو اپنے اس قول (خذ من اموالھم صدقۃ ) سے بیان کردیا ہو۔ اور اس طرح مال کا بعض حصہ وصول کرنے کی ہدایت دے دی گئی کل مال وصول کرنے کی نہیں۔ اس سے پہلی آیت کے نسخ کا وجوب نہیں ہوتا اس لئے کہ اس سے ولاینفقون منھا۔ مراد لینا درست ہے اس لئے نسخ لازم نہیں آتا۔ کنز کسے کہتے ہیں ؟ کنز ایک چیز کو بھینچ دینا اور اسے اچھی طرح دبا کر رکھنے کو کہتے ہیں۔ الھندلی کا شعر ہے۔ لادر دری ان الطعمت نازلسکم قرف الحتی وعندی البر مکنوز خدا کرے میں خوش حال نہ رہوں اگر میں تمہارے مہمان کو بھوسے کی روٹی کا تنور میں رہ جانے والا چھلکا کھلائوں یعنی جلی ہوئی روٹی دوں جب کہ میرے گندم کا آٹا موجود ہو جو ٹھسا ہوا رکھا ہے۔ جب آپ کھجور کو بانس کی ٹوکری میں دبا دبا ر رکھیں تو اس وقت کہا جاتا ہے : کنرت التمر۔ شریعت میں کنز اس مال کا نام ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ حسن، عامر، سدی اور دیگر حضرات سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو وہ کنز کہلائے گا۔ پھر ان میں سے بعض کا یہ قول ہے کہ اگر زکوٰۃ نہ نکالی گئی ہو تو وہ مال خواہ ظاہر ہو یعنی دفینے کی صورت میں نہ ہو کہ کنز کہلائے گا اور اگر زکوٰۃ نکال دی گئی ہو تو وہ مال خواہ دفینے کی صورت میں ہو کنز نہیں کہلائے گا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ شرعی اسماء توقیف یعنی شرعی دلیل اور رہنمائی کے ذریعے ہی مقرر کئے جاتے ہیں اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کنز ہر اس مال کا نام ہے جس کی مقررہ زکوٰۃ نہ نکالی گئی ہو۔ جب بات اس طرح ہے تو قول باری (والذین لا یکنزون الذھب والفضۃ) کی عبارت کچھ اس طرح ہوگی۔ الذین لایودون زکاۃ الذھب والفضۃ (جو لوگ سونے اور چاندی کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے) پھر فرمایا (ولاینفقونھا) یعنی زکوٰۃ کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اس صورت میں آیت صرف وجوب زکوٰۃ کی مقتضی ہوگی کسی اور مفہوم کی نہیں۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی۔ انہیں ابودائود نے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے، انہیں یحییٰ بن یعلی المحاربی نے، انہیں ان کے والد نے ، انہیں غیلان نے جعفر بن ایاس سے، انہوں نے مجاہد سے۔ اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ جب آیت زیر بحث نازل ہوئی تو مسلمان اس سے بڑے فکرمند ہوگئے۔ حضرت عمر ؓ فرمانے لگے کہ میں اس پریشانی کو دور کرنے کا چارہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کیا کہ اس آیت سے آپ ﷺ کے صحابہ کو بڑی پریشانی لاحق ہوگئی ہے اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کی فرضیت صرف اس لئے کی ہے کہ تمہارا باقی ماندہ مال تمہارے لئے پاک و طیب ہوجائے۔ اسی طرح تم پر میراث کی فرضیت اس لئے کی گئی ہے کہ یہ مال تمہارے پس ماندگان کو مل جائے۔ “ جب حضرت عمر ؓ نے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ بات سنی تو خوشی میں آکر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا پھر حضور ﷺ نے مزید فرمایا : ” میں تمہیں نہ بتادوں کہ انسان کے لئے اس کا بہترین خزانہ کونسا ہے اس کی وہ نیک بیوی ہے کہ جب اس پر نظر ڈالے تو خوش ہوجائے اور جب کوئی کام کہے تو فوراً کرلے۔ اور جب اس کے پاس موجود نہ ہو تو اس دوران اس کی نگہبانی کرے۔ “ یعنی اپنی عزت و آبرو اور اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرے۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے بیان فرمادیا کہ انفاق سے مال کا کچھ حصہ خرچ کرنا مراد ہے۔ سارا مال خرچ کردینا مراد نہیں ہے۔ اور قول باری (الذین یکنزون) سے وہ لوگ مراد ہیں جو زکوٰۃ نہیں نکالتے۔ ابن لھیعہ نے روایت بیان کی ہے، انہیں دراج نے ابو الہیثم سے، انہوں نے حضرت ابو سعید ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت الحق الذی یجب علیک۔ جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ نکال دو تو تم نے گویا وہ حق ادا کردیا جو تم پر واجب ہوا تھا) اس حدیث میں بھی یہی بیان کیا گیا کہ مال میں واجب ہونے والے حق کا نام زکوٰۃ ہے۔ سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (مامن صاحب کنز لایودی زکوٰۃ کنزہ الاجی بہ یوم القیامۃ وبکنزہ فیحمی بھا جنبہ وجبینہ حتیٰ یحکم اللہ بین عبادہ۔ جس شخص کے پاس کنز یعنی خزانہ ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادانہ کرے تو قیامت کے دن اسے اس کے خزانے کے ساتھ لایا جائے گا اور پھر اس کے خزانے کو پگھلا کر اس کے پہلو اور پیشانی کو داغا جاتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے متعلق اپنے فیصلہ سنادے گا) اس حدیث میں بھی حضور ﷺ نے بتادیا کہ کنز یعنی خزانے میں واجب ہونے والا حق زکوٰ ۃ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ نیز یہ کہ سارا خزانہ خرچ کردینا واجب نہیں ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد (فیحمیٰ بھا جنبہ وجبینہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے یہ فرما کر وہی معنی لئے ہیں جو اس قول میں مذکور ہیں (ولذین یکنزون الذھب والفضۃ) تا قول باری (فتکویٰ بھا جباھم وجنوبھم وظھورھم ھذا ماکنزتم لانفسکم۔ اور پھر اسی سونے چاندی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کررکھا تھا) یعنی تم لوگوں نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی۔ ہمیں عبدالباقی بن قانے نے روایت بیان کی۔ انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں عبداللہ بن صالح نے، انہیں عبدالعزیز بن ابی سلمہ الماجشون نے عبداللہ بن دینار سے اور انہوں نے حضرت عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان الذی لایودی زکوٰتہ یمثل لہ شجاع اقرع لہ زبیبتان بلزمہ اویطوقہ فیقول ا ناکترک، اناکنزک۔ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتا قیامت کے دن اس کے اس مال کو ایک زہریلے گنجے سانپ کی شکل دے دی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، پھر یہ سانپ اس کے ساتھ چپکا رہے گا یا اس کی گردن کے گرد لپٹا رہے گا۔ اور اس سے کہتا رہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں) ۔ ہمارے بیان سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری (والذین یکنزون الذھب والفضۃ) تا آخر آیت میں زکوٰۃ کی عدم ادائیگی مراد ہے، آیت کے عموم نے ہر قسم کے سونا چاندی میں زکوٰۃ کے ایجاب کو لازم کردیا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم کو سونے چاندی کے اسم کے ساتھ معلق کردیا ہے، اس لئے آیت اسم کے وجود کے ساتھ سونے چاندی کی زکوٰۃ کے ایجاب کی مقتضی ہوگی، اس کے وجوب کے لئے سونے چاندی کے اسم کا وجود ضروری ہے، سونے چاندی سے متعلقہ کاریگری کی ضرورت نہیں ہے یعنی جس شخص کے پاس سونا یا چاندی خواہ کسی بھی شکل میں ہو اس پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ دوسرے الفاظ میں اس کے پاس ڈھلا ہوا سونا یا چاندی ہو یا سکوں کی شکل میں ہو یا ڈلیوں کی صورت میں ہو اس پر لفظ کے عموم کی بنا پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث میں سونا اور چاندی دونوں کا ایک ساتھ ذکر کرکے ان کے مجموعے پر زکوٰۃ کا حق واجب کردیا ہے۔ اس لئے اس سے یہ دلالت حاصل ہوتی ہے کہ نصاب زکوٰۃ مکمل کرنے کے لئے سونے کو چاندی کے ساتھ ملانا واجب ہے۔ زیورات کی زکوٰۃ زیورات کی زکوٰۃ کی مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے زیورات پر زکوٰۃ واجب کردی ہے۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود سے اسی قسم روایت ہے سفیان ثوری (رح) نے حماد سے اس کی روایت کی ہے انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے ، حضرت جابر ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ زیورات میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا یہی قول ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ زیورات کی صرف ایک دفعہ زکوٰۃ نکالی جائے گی اور اس کے بعد اس کی زکوٰۃ نکالنے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب پر آیت کی دلالت کی وجہ بیان کردی ہے جو یہ ہے کہ سونے اور چاندی کا اسم زیورات کو بھی شامل ہے۔ حضور ﷺ سے زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب پر دلالت کرنے والی روایات منقول ہیں۔ ایک روایت کے راوی عمرو بن شعیب ہیں۔ انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کی ہے۔ حضور ﷺ نے دو عورتوں کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن دیکھے۔ آپ نے پوچھا کہ ان کی زکوٰۃ نکالی جاتی ہے ؟ جواب نفی میں ملا۔ اس پر حضور ﷺ نے ان دونوں خواتین سے فرمایا : کیا تمہیں یہ بات اچھی لگے گی کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان دونوں کنگنوں کے بدلے جہنم کی آگ کے دوگنگن تمہیں پہنادے۔ “ آپ ﷺ نے کنگن میں بھی زکوٰۃ واجب کردی۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی۔ انہیں ابو دائود نے، انہیں محمد بن عیسیٰ نے، انہیں عتاب نے ثابت بن عجلان سے، انہوں نے عطا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ ؓ سے، وہ فرماتی ہیں کہ میں سونے کے قازیب پہنا کرتی تھی۔ میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ آیا یہ کنز میں داخل ہے۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا کہ ” جس سونے کی مقدار زکوٰۃ کے نصبا کو پہنچ جائے اس کی زکوٰۃ ادا کرو، وہ کنز نہیں کہلائے گا۔ “ اس روایت میں دو باتوں پر دلالت پائی جاتی ہے ایک تو یہ کہ زیورات میں زکوٰۃ واجب ہے اور دوسری یہ کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے وہ کنز ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن ادریس الرازی نے، انہیں عمرو بن الربیع بن طارق نے ، انہیں یحییٰ بن ایوب نے عبید اللہ بن ابی جعفر سے، کہ انہیں محمد بن عمرو بن عطاء نے بتایا ہے کہ انہیں حضرت عبداللہ ؓ بن شداد بن الہاد نے یہ خبر دی کہ ہم حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ فرمانے لگیں کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ میرے پاس تشریف لائے۔ اس وقت میرے ہاتھ میں چاندی کے زیور پڑے ہوئے تھے۔ آپ نے دیکھ کر پوچھا کہ یہ زیور کیسے ہیں ؟ میں نے عرض کیا۔ میں نے خود ہی انہیں زیور کی شکل دے دی ہے تاکہ آپ کے سامنے انہیں پہن لیا کروں۔ آپ نے پوچھا کہ اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو ؟ میں نے نفی میں جواب دیا یا اسی قسم کے ، اللہ جانے، کوئی الفاظ کہے، جسے سن کر آپ ﷺ نے فرمایا (ھو حسبک من النار۔ تمہارے لئے جہنم کی آگ کا اتنا ہی حصہ کافی ہے) ۔ یہ حدیث دو باتوں پر دلالت کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ زیورات پر زکوٰۃ واجب ہے اور دوسری یہ کہ ڈھلی ہوئی چاندی کو بھی ورق کہا جاتا ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا (فتخان من ورق) حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ (فی الرقۃ ربع العشر۔ چاندی کی ڈلیوں یا سکوں میں چالیسواں حصہ ہے) آپ کا یہ قول ظاہری طور پر زیورات میں زکوٰۃ کے ایجاب کا مقتضی ہے اس لئے کہ رقۃ اور ورق دونوں ہم معنی الفاظ ہیں۔ قیاس اور نظر کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہورہی ہے وہ یہ کہ سونے اور چاندی کے عین میں زکوٰۃ کا وجوب ہوتا ہے بشرطیکہ وہ ایسے شخص کی ملکیت میں ہوں جو زکوٰۃ نکالنے کا اہل ہوں۔ زکوٰۃ کا وجوب سونے اور چاندی کی کسی صفت کے ساتھ نہیں ہوتا جو ان کے ساتھ مخصوص ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سونے یا چاندی کے پگھلے ہوئے ٹکڑوں یا ڈلیوں پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی ہے اگرچہ مال کی افزائش کی خاطر نہ رکھا گیا ہو، سونا اور چاندی اسی امر میں دوسرے اموال سے مختلف ہیں اس لئے کہ دوسرے اموال میں صرف زکوٰۃ کے اہل شخص کی ملکیت میں آجانے کی بنا پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی جب تک کہ ان میں نماء یعنی مال کی افزائش کا پہلو نہ پایا جائے۔ اس لئے ڈھلے ہوئے سونے اور زیورات کی شکل میں موجود سونے کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ نیز اس پر سب کا اتفاق ہے کہ زیورات اگر مرد کی ملکیت میں ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی اس لئے اگر یہ عورت کی ملکیت میں ہوں تو اس صورت میں بھی ان کا یہی حکم ہونا چاہیے جس طرح درہم و دیار کا حکم ہے۔ نیز جن اموال میں زکوٰۃ لازم ہوتی ہے ان کے حکم میں مرد اور عورت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لئے زیورات کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اور مرد و عورت کے لحاظ میں ان میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ زیورات کی حیثیت کام کرنے والے بیلوں اور استعمال ہونے والے کپڑوں کی طرح ہے اور چونکہ ان میں زکوٰۃ کا وجوب نہیں ہوتا اس لئے زیورات میں بھی زکوٰۃ واجب نہیں ہونی چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ سونے چاندی کے علاوہ دوسرے تمام اموال میں زکوٰۃ کا وجوب اس وقت ہوتا ہے جب ان میں نماء یعنی افزائش کا پہلو موجود ہو اور انہیں افزائش کی خاطر رکھا گیا ہو۔ اس لئے جن اموال می یہ مفہوم نہیں پایا جائے گا اور ان میں زکوٰۃ کا وجوب نہیں ہوگا جبکہ عین سونا اور عین چاندی پر زکوٰۃ کا وجوب ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ درہم و دینار اور سونے چاندی کی ڈھلی ہوئی ڈلیوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جبکہ ڈھلائی کا مقصد صرف یہ ہو کہ ملاوٹ سے انہیں پاک کردیا جائے اور اس کے بعد محفوظ کرلیا جائے۔ مال کی افزائش مقصد نہ ہو۔ نیز ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سونے اور چاندی کے اندر کاریگروں کی کاریگری ا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اس کاریگری کی وہ سے کسی بھی حالت میں ان کے حکم کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ کاریگری کے وجود اور عدم وجود دونوں صورتوں میں حکم کے اندر کوئی فرق نہ آئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ زیورات کو عاریت کے طور پر کسی کو دے دینا ہی اس کی زکوٰۃ ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے کہ عاریت واجب نہیں ہوتی جبکہ زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ اس لئے عاریت کو زکوٰۃ کا نام دے دینا باطل ہے۔ امام مالک (رح) کا یہ قول کہ زیورات میں صرف ایک مرتبہ زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اس لئے کہ اگر زیورات زکوٰۃ واجب ہونے والے اموال کی جنس میں شامل ہیں تو ان میں ہر سال زکوٰۃ واجب ہوگی۔ فصل زیر بحث آیت سونے اور چاندی دونوں کے مجموعے پر زکوٰۃ کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے یہ دلالت ایک کو دوسرے کے ساتھ ضم کردینے کے وجوب کی مقتضی ہے۔ اس بارے میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ایک کو وسرے میں ضم کردیا جائے گا اور اس طرح جب نصاب مکمل ہوجائے گا تو زکوٰۃ نکال دی جائے گی۔ تاہم انضمام کی کیفیت کے متعلق ہمارے اصحاب کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کا قول ہے کہ قیمت کے ذریعے انضمام ہوگا جس طرح عروض یعنی سامان تجارت میں ہوتا ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ یہ انضمام اجزاء کے ذریعے ہوگا۔ ابن ابی لیلیٰ اور امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ ایک کو دوسرے کے ساتھ ملایا نہیں جائے گا۔ ایک کو دوسرے میں ضم کرنے کی روایت حسن ، قتادہ اور یکہ بن عبداللہ بن الاشج سے بھی مروی ہے۔ سونا اور چاندی دونوں کے مجموعے پر زکوٰۃ کے وجوب کی دلیل یہ قول باری ہے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ملاکر ان پر زکوٰۃ واجب کردی ہے اس لئے کہ قول باری (ولاینفقونھا) میں ان دونوں کا انفاق مراد ہے۔ دونوں کو ملادینے کے وجوب پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حق کے وجوب کے لحاظ سے دونوں یکساں ہیں یہ حق چالیسواں حصہ ہے اس لئے ان دونوں کی حیثیت تجارت کی غرض سے موجود مختلف اشیا جیسی ہے تجارت کی ان اشیاء کا چونکہ چالیسواں حصہ بطور زکوٰۃ لیا جاتا ہے اس لئے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ضم کردیا جاتا ہے حالانکہ ان کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ امام شافعی نے یہ فرمایا ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس ایک سو درہم نقد ہوں اور ایک سو درہم کا سامان تجارت ہو تو اس صورت میں اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اس طرح انہوں نے سامان کو سو درہم نقد کے ساتھ ملادیا حالانکہ دونوں کی جنس ایک دوسرے سے متخلف ہے۔ اس انضمام کی وجہ یہ ہے کہ چالیسویں حصے کے وجوب کے لحاظ سے دونوں یکساں ہیں۔ تاہم سونا اور چاندی اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کی نسبت سے دو جنس کی طرح نہیں ہیں اس لئے کہ اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کی زکوٰۃ کا حساب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ چالیس بکریوں کی زکوٰۃ کی طرح ہے لیکن واجب ہونے والے حق کے لحاظ سے ان دونوں کی یکسانیت ایک کو دوسرے کے ساتھ ملانے کی موجب نہیں ہے اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ ہم نے یہ نہیں کہا ہے کہ واجب ہونے والی مقدار میں سونے اور چاندی کی یکسانیت ایک کو دوسرے کے ساتھ ملا دینے کی موجب ہے۔ ہم نے تو صرف یہ کہا ہے کہ ان دونوں کی چالیسویں حصے کے وجوب میں یکسانیت ان دونوں کے انضمام کی سبب ہے جس طرح اشیاء تجارت میں انضمام کے وقت چالیسویں حصے کے وجوب میں یکسانیت ہوتی ہے اس کے برعکس اونٹوں اور بھیڑ بکریوں میں چالیسواں حصہ واجب نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ ایک بکری پانچ اونٹوں کا چالیسواں حصہ نہیں ہوتی نہ ہی یہ چالیس بکریوں کا چالیسواں حصہ ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ہوسکتا ہے کہ چالیس بکریاں عمدہ قسم کی ہوں اور زکوٰۃ میں لی جانے والی بکری متوسط درجے کی ہو۔ اس طرح یہ بری چالیسویں حصے سے کم ہوگی۔ اس لئے معترض کا یہ الزامی اعتراض ساقط اور باطل ہے۔ اگر یہ حضرات حضور ﷺ کی اس حدیث سے استدلال کریں کہ (لیس فیما دون خمس واق صدقۃ۔ پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے) ۔ یہ حدیث چاندی میں زکوٰۃ کو واجب کردیتی ہے خواہ اس کے ساتھ سونا موجود ہو یا نہ ہو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جس طرح حضور ﷺ کا یہ ارشاد سو درہم کو سامان تجارت کی قیمت کے ساتھ ضم کرنے سے مانع نہیں ہے اور معترض کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ انضمام اس وقت ہوگا جب اس سو درہم کے ساتھ اس سامان تجارت کے علاوہ دوسری اشیاء نہ ہوں۔ اسی طرح ہم بھی چاندی کو سونے کے ساتھ ملاکر زکوٰۃ نکالنے کے بارے میں کہتے ہیں۔ اس لئے اس حدیث کے ذریعے ہمارے مسلک پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
Top