Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 34
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنَّ : بیشک كَثِيْرًا : بہت مِّنَ : سے الْاَحْبَارِ : علما وَالرُّهْبَانِ : اور راہب (درویش لَيَاْكُلُوْنَ : کھاتے ہیں اَمْوَالَ : مال (جمع) النَّاسِ : لوگ (جمع) بِالْبَاطِلِ : ناحق طور پر وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَكْنِزُوْنَ : جمع کر کے رکھتے ہیں الذَّهَبَ : سونا وَالْفِضَّةَ : اور چاندی وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا : اور وہ اسے خرچ نہیں کرتے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَبَشِّرْهُمْ : سو انہیں خوشخبری دو بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اے ایمان والو بہت سے عالم اور درویش اہل کتاب کے کھاتے ہیں مال لوگوں کے ناحق اور روکتے ہیں اللہ کی راہ سے، اور جو لوگ گاڑھ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں سو ان کو خوش خبری سنا دے عذاب دردناک کی،
چو تھی آیت میں مسلمانوں کو مخاطب بنا کر یہود و نصارٰی کے علماء و مشائخ کے ایسے حالات کا ذکر ہے جن کی وجہ سے عوام میں گمراہی پھیلی، مسلمانوں کو مخاطب کرنے سے شاید اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ یہ حالات یہود و نصارٰی کے علماء و مشائخ کے بیان ہو رہے ہیں لیکن ان کو بھی اس سے متنبہ رہنا چاہئے کہ ان کے ایسے حالات نہ ہوجائیں۔
اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہود و نصارٰی کے بہت سے علماء و مشائخ کا یہ حال ہے کہ باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور اللہ کے سیدھے راستہ سے ان کو روکتے ہیں۔
یہود و نصارٰی کے اکثر علماء و مشائخ کا یہی حال تھا اور ایسے حالات میں عام طور پر کہنے والے سبھی کو برا کہا کرتے ہیں، لیکن قرآن کریم نے اس جگہ لفظ كَثِيْرًا کا اضافہ کرکے مسلمانوں کو دشمنوں کے معاملہ میں بھی احتیاط کلام کی تلقین فرمادی کہ یہ حال سب لوگوں کی طرف منسوب نہیں فرمایا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان میں بہت سے لوگ ایسا کرتے ہیں، ان کی گمراہی یہ بتلائی گئی کہ وہ لوگوں کے اموال باطل طریقہ سے کھاتے ہیں، باطل طریقہ سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ بعض اوقات ان لوگوں سے پیسے لے کر حکم تورات کے خلاف فتوٰی دیدیتے تھے، اور بعض اوقات احکام الہی میں اخفاء اور تلبیس سے کام لیتے تھے، اس پر مزید ان کی یہ گمراہی بتلائی گئی کہ یہ کم بخت صرف خود ہی گمراہ نہیں بلکہ دوسرے طالبان رشد و ہدایت کو اللہ کے راستہ سے روکنے کا سبب بھی ہیں، کیوں کہ جب لوگ اپنے مقتداؤں کو ایسے کام کرتے دیکھیں تو ان میں بھی جذبہ حق پرستی مرجاتا ہے، اس کے علاوہ ان کے غلط فتو وں کی بنیاد پر وہ گمراہی اور غلطی ہی کو صواب و صحیح سمجھنے لگتے ہیں۔
یہود و نصارٰی کے علماء و مشائخ کی یہ بیماری کہ پیسوں کے لالچ میں غلط فتوی دیدیں چونکہ حب مال اور حرص دنیا کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، اس لئے آیت مذکورہ میں حب مال کے اندر غلو کے نتائج بد اور عذاب الیم کا بیان اور اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ ذکر کیا گیا ہے، ارشاد ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ، یعنی جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرتے رہتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو عذاب دردناک کی خوش خبری سنا دیجئے“۔
وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا کے لفظوں سے اس طرف اشارہ ہوگیا کہ جو لوگ بقدر ضروری اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو باقی ماندہ جمع کیا ہوا مال ان کے حق میں مضر نہیں۔
حدیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس مال کی زکوٰة ادا کردی جائے وہ كَنَزْتُمْ میں داخل نہیں۔ (ابوداود، احمد وغیرہ)
جس سے معلوم ہوا کہ زکوٰة نکالنے کے بعد جو مال باقی رہے اس کا جمع رکھنا کوئی گناہ نہیں۔
جمہور فقہاء و ائمہ کا یہی مسلک ہے وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا کی ضمیر فضۃ کی طرف راجع ہے، جس کے معنی چاندی کے ہیں، اوپر سونے اور چاندی دو چیزوں کا ذکر تھا مگر ضمیر صرف چاندی کی طرف راجع کی گئی، تفسیر مظہری میں اس کو اشارہ اس بات کا قرار دیا ہے کہ جب کسی شخص کے پاس سونا اور چاندی تھوڑا تھوڑا موجود ہو تو اعتبار چاندی کا کیا جائے گا، سونے کی قیمت بھی چاندی کے حساب میں لگا کر زکوٰة ادا کی جائے گی۔
Top