Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 27
ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ وَ یَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَ السُّوْٓءَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
ثُمَّ : پھر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن يُخْزِيْهِمْ : وہ انہیں رسوا کرے گا وَيَقُوْلُ : اور کہے گا اَيْنَ : کہاں شُرَكَآءِيَ : میرے شریک الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كُنْتُمْ : تم تھے تُشَآقُّوْنَ : جھگڑتے فِيْهِمْ : ان (کے بارہ) میں قَالَ : کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْعِلْمَ : دئیے گئے علم (علم والے) اِنَّ : بیشک الْخِزْيَ : رسوائی الْيَوْمَ : آج وَالسُّوْٓءَ : برائی عَلٰي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر وہ ان کو قیامت کے دن بھی ذلیل کرے گا اور کہے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم جھگڑا کرتے تھے ؟ جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہیں گے کہ آج کافروں کی رسوائی اور برائی ہے۔
27۔ اللہ پاک نے فریب سے دین الٰہی کے روکنے کا نتیجہ جو کچھ دنیا میں ہوا اس کو بیان کر کے انہیں مکاروں کا آخرت کا حال یہ بیان کیا کہ یہ لوگ قیامت کے دن بہت ذلیل و رسوا ہوں گے اللہ پاک ان کی مکر کی باتوں کو اور ان بھیدوں کو جو ان کے دل میں پوشیدہ ہوں گے اپنی ساری مخلوق کے سامنے ظاہر کر دے گا۔ صحیحین میں ابن عمر ؓ کی ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہر ایک دغا باز کا جھنڈا اس کے ساتھ ہوگا اور اس کے فریب کے بموجب کہا جائے گا یہ فلاں شخص کا فریب ہے 1 ؎۔ پھر اللہ تعالیٰ ان دغا بازوں سے یہ کہے گا کہ وہ کہاں ہیں جنہیں تم نے اللہ کا شریک ٹھہرایا تھا اور ان کی حمایت میں اللہ کے رسولوں کے ساتھ جھگڑا کرتے تھے اور جن کی وجہ سے تم مسلمانوں سے لڑا کرتے تھے اب انہیں بلاؤ وہ کہاں گئے تمہاری مصیبت کے وقت مدد کرنے نہیں آتے پھر جب ان پر حجت تمام ہوچکے گی تو نیک لوگ بطور طعن وتشنیع کے کہیں گے بیشک آج کی رسوائی اور ذلت کفاروں ہی کے واسطے ہے۔ مفسروں نے اختلاف کیا ہے کہ اس بات کے کہنے والے کون لوگ ہوں گے بعضوں نے یہ بیان کیا ہے کہ علما ہوں گے جو اپنی قوم کو وعظ و نصیحت کر کے سمجھایا کرتے تھے اور قوم کے لوگ نہیں مانتے تھے اس روز ان کی رسوائی اور ذلت دیکھ کر وہ علماء کہیں گے کہ ہماری نصیحت نہ مانی کفر پر جمے رہے آج دیکھ لیا کہ کیسی ذلت ہو رہی ہے اور بعضے مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ اس کلام کے کہنے والے انبیاء ہوں گے وہاں کہیں گے کہ ہماری باتیں تم نے نہیں مانیں خدا کے ساتھ بتوں کو شریک ٹھہرایا اور کفر کیا اب دیکھ لیا کیسی رسوائی ہو رہی ہے اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ کہنے والے اس وقت کے فرشتے ہوں گے انہیں طعنہ دے کر غصہ دلانے کو یہ بات کہیں گے۔ صحیح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ انبیاء عام ایماندار سب کے منہ سے یہ بات نکلے گی۔ صحیح بخاری، مسلم، ترمذی اور ابوداؤد میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو جن لوگوں پر عذاب کرنا منظور ہوگا ان کا حساب بڑی جلدی سے لیا جاوے گا 2 ؎۔ اس حدیث کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ کفر و شرک ریا کاری اور بدعت کے حساب کی کرید میں اسی طرح کے سوالات کئے جاویں گے جس طرح مثلاً اس آیت میں مشرکوں سے سوال کیا گیا کہ وہ جھوٹے معبود کہاں ہیں تمہاری مصیبت کے وقت تم کو مدد کیوں نہیں دیتے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 452 ج 1 باب اثم الغ اور للبر والفاجر۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 484 باب الحساب والقصاص والمیزان۔
Top