Tafseer-al-Kitaab - Al-Hashr : 10
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما۔ اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔
(وَالَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ ) یعنی جو اہل ایمان مہاجرین وانصار کے بعد آئے ( يَقُوْلُوْنَ ) وہ اپنی اور تمام مومنین کی خیرخواہی کے لیے کہتے ہیں ( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ) اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں یہ دعا تمام گزرے ہوئے اہل ایمان، صحابہ کرام ان سے پہلے اور ان کے بعد آنے والے تمام اہل ایمان کو شامل ہے۔ یہ ایمان کی فضیلت ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ایمان میں مشارکت کے سبب سے ایک دوسرے کے لیے دعا کرتے ہیں ایمان مومنین کے درمیان اخوت کا تقاضا کرتا ہے جس کی فروع میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے دعا کریں اور ایک دوسرے سے محبت کریں اس لیے اللہ تبارک وتعالی نے اس دعا میں قلب سے کینے کی نفی کا ذکر فرمایا جو قلیل و کثیر ہر قسم کے کینے کو شامل ہے جب کینے کی نفی ہوگئی تو اس کی ضد ثابت ہوگئی اور وہ ہے اہل ایمان کے مابین محبت وموالات اور خیرخواہی وغیرہ جو اہل ایمان کے حقوق شمار ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بعد آنے والوں کو ایمان کے وصف سے موصوف کیا ہے کیونکہ ان کا قول (سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ ) ایمان میں ان کی مشارکت پر دلالت کرتا ہے نیز اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ عقائد ایمان اور اس کے اصول میں صحابہ کرام کی پیروی کرنے والے ہیں اور وہ اہل سنت والجماعت ہیں کیونکہ یہ وصف تام صرف انہی پر صادق آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں کے اقرار اور پھر ان گناہوں سے استغفار کے ساتھ موصوف کیا ہے نیز یہ کہ وہ ایک دوسرے کے لیے استغفار کرتے ہیں اور مومن بھائیوں کے خلاف کینہ اور حسد کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کا اس چیز کی دعا کرنا، ان امور کو مستلزم ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور ان کے ایک دوسرے سے محبت کرنے کو مستلزم ہے اور اس امر کو بھی مستلزم ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اس کی موجودگی اور عدم موجودگی میں اس کی زندگی میں اور اس کے مرنے کے بعد اس کی خیرخواہی کرے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ یہ سب کچھ اہل ایمان کے ایک دوسرے پر جملہ حقوق ہیں پھر انہوں نے اپنی دعا کو اللہ کے دو اسمائے کریمہ پر ختم کیا جو اللہ کے کمال رحمت اور شدت رافت و احسان پر دلالت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے جملہ احسانات میں سے بلکہ ان میں سے سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ان کو اپنے حقوق اور اپنے بندوں کے حقوق قائم کرنے کی توفیق سے بہرور کیا۔ یہ تین اوصناف کے لوگ اسی امت کے لوگ ہیں جو فے کے مستحق ہیں جس کا مصرف اسلام کے مصالح کی طرف راجع ہے اور وہی لوگ اس کی اہلیت رکھتے ہیں جو اس اس کے اہل ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی ان میں شامل کردے۔
Top