Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 27
ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ وَ یَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَ السُّوْٓءَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
ثُمَّ : پھر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن يُخْزِيْهِمْ : وہ انہیں رسوا کرے گا وَيَقُوْلُ : اور کہے گا اَيْنَ : کہاں شُرَكَآءِيَ : میرے شریک الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كُنْتُمْ : تم تھے تُشَآقُّوْنَ : جھگڑتے فِيْهِمْ : ان (کے بارہ) میں قَالَ : کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْعِلْمَ : دئیے گئے علم (علم والے) اِنَّ : بیشک الْخِزْيَ : رسوائی الْيَوْمَ : آج وَالسُّوْٓءَ : برائی عَلٰي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر قیامت کے دن (اللہ) انہیں رسوا کرے گا اور کہے گا میرے وہ ” شریک “ کہاں ہیں جن کے باب میں تم لڑا جھگڑا کرتے تھے،36۔ علم والے (اس وقت) بول اٹھیں گے کہ آج (پوری) رسوائی اور سختی کافروں پر ہے،37۔
36۔ (اہل ایمان سے) یعنی آخرت میں منکرین پوری اور انتہائی طور پر ذلت ورسوائی کے شکار ہوں گے، اور انہیں اور زیادہ جلانے، کڑھانے کے لیے ان سے سوال ہوگا کہ اب بتلاؤ، وہ تمہارے معبود کدھر گئے، جنہیں تم شریک الوہیت سمجھا کرتے تھے، اور جن کی خاطر تم اہل ایمان سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ (آیت) ” شرکآء ی “۔ یعنی میرے شریک تمہارے زعم وپندار کے مطابق۔ ای شرکاءی فی زعمکم واعتقادکم (کبیر عن الزجاج) علی الاضافۃ الی نفسہ حکایۃ لاضافتھم (کشاف) الذین کنتم تزعمون فی الدنیا انھم شرکاءی (ابن جریر) 37۔ وہ منکرین مردودومخذول تو کیا جواب دیں گے، البتہ اہل حق پکار اٹھیں گے کہ آج کے دن (جیسا کہ ہم دنیا میں کہا کرتے اور سمجھتے رہتے تھے) پوری ذلت ورسوائی اور ساری سختی ومصیبت منکرین حق ہی کے لیے ہے ! فرقہ مرحبہ نے یہیں سے یہ استدلال کیا ہے کہ عذاب آخرت کافروں ہی کے ساتھ مخصوص، محدود ہے، مومنین عاصی کو اس سے تعلق نہ ہوگا۔ (آیت) ” الذین اوتوالعلم “۔ یعنی انبیاء مرسلین اور ان کے متبعین صادقین، وھم الانبیاء (علیہم السلام) ال مومن ون الذین اوتوا علما بدلائل التوحید (روح) قال یحییٰ بن سلام ھم ال مومن ون (بحر)
Top