Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 27
ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُخْزِیْهِمْ وَ یَقُوْلُ اَیْنَ شُرَكَآءِیَ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَ السُّوْٓءَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
ثُمَّ : پھر يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن يُخْزِيْهِمْ : وہ انہیں رسوا کرے گا وَيَقُوْلُ : اور کہے گا اَيْنَ : کہاں شُرَكَآءِيَ : میرے شریک الَّذِيْنَ : وہ جو کہ كُنْتُمْ : تم تھے تُشَآقُّوْنَ : جھگڑتے فِيْهِمْ : ان (کے بارہ) میں قَالَ : کہیں گے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْعِلْمَ : دئیے گئے علم (علم والے) اِنَّ : بیشک الْخِزْيَ : رسوائی الْيَوْمَ : آج وَالسُّوْٓءَ : برائی عَلٰي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
(یہ حشر تو ان کے ساتھ دنیا میں ہوا) پھر قیامت کے روز اللہ انھیں (بطور خاص) رسوا کرے گا اور ان سے کہے گا (کہ بتاؤ اب) کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم لوگ (اہل حق) سے جھگڑے کیا کرتے تھے،4 تب کہیں گے وہ لوگ جن کو علم دیا گیا کہ واقعی آج کے دن سخت رسوائی اور بڑی بدبختی ہے ان کافروں کے لئے،
51۔ منکروں کے لئے اصل عذاب آخرت میں۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ آخرت میں ان کے لئے ذلت و رسوائی کا عذاب ہوگا یعنی اس دنیاوی عذاب پر ہی بس نہیں بلکہ اصل عذاب تو آخرت کا ہے جو کہ بہت ہی بڑا نہایت ہی سنگین ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا (ولعذاب الاخرۃ اکبر لوکانوا یعلمون) (القلم : 32) یعنی آخرت کا عذاب یقینی طور پر بہت بڑا ہوگا۔ نیز فرمایا گیا (ولعذاب الاخرۃ اشق وما لہم من اللہ من واق) (الرعد : 34) یعنی آخرت کا عذاب یقینا بڑا ہی سخت ہوگا اور ان کے لئے اللہ کی پکڑ سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ سو نورحق و ہدایت سے محرومی اور راہ حق و صداقت سے روکنے اور منع کرنے کا جرم ایسا ہولناک اور اس قدر سنگین جرم جو انسان کو دارین کی سعادتوں سے محروم کرکے دائمی ہلاکت اور تباہی کے ہولناک گڑھے میں ڈال دیتا ہے۔ مگر آخرت کا وہ عذاب چونکہ عالم غیب میں ہے اس لئے دنیا اس سے غافل و لاپرواہ ہے۔ کل قیامت میں جب کشف حقائق کا وہ جہاں سامنے آئے گا تب ان کی یاس وحسرت کا کوئی کنارہ نہیں ہوگا مگر بےوقت کے اس افسوس سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہوگا۔ سوائے ان کی آتش یاس وحسرت میں اضافے کے تو پتہ چلے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 52۔ قیامت کے روز مشرکین کی رسوائی کا ایک منظر : مفسدین و منکرین تمام ترفساد اور خرابی کا اصل باعث چونکہ ان کا کبرو و غرور اور استکبار تھا۔ اور جزاء چونکہ جنس عمل سے ہوتی ہے۔ اس لیے ان کو قیامت کے روز رسوا کیا جائے گا۔ اور ان کی رسوائی کا ایک منظر یہ ہوگا کہ اس روز ان سے کہا جائے گا کہ کہاں ہیں تمہارے وہ خود ساختہ شریک جن کو تم لوگوں نے ازخود گھڑ رکھا تھا ؟ اور تم بڑے گھمنڈ اور زور کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ یہ بڑی قوت اور بہت پاور والے ہیں۔ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ ہمیں جو کچھ ملا ہے انہی سے ملا ہے۔ " ہماری ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے "۔ (ھولاء شفعاؤنا عنداللہ) ۔ یعنی " یہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہمارے سفارشی ہوں گے۔ اور ہمارے حاجت رواومشکل کشا ہیں۔ یہ ہمارا ہر کام بناتے اور ہمیں ہر جگہ کام آتے ہیں۔ اور کل آخرت میں بھی یہی ہمارا کام بنائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ سو اس روز ان سے کہا جائے گا کہ اب کہاں گئے تمہارے وہ شرکاء اور اب وہ تمہارے کام کیوں نہیں آتے ؟ سو یہ ان سے ان کی تذلیل و تحقیر کے لئے کہا جائے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور مشرکین کی اس رسوائی کی کچھ مزید تفصیل آگے آیت نمبر 86 میں بھی آرہی ہے۔ سو یہاں پر اس بارے میں توجہ کی ضرورت ہے کہ قرآن حکیم کا دنیا پر کس قدر بڑا اور کتنا عظیم الشان احسان ہے کہ اس نے عالم آخرت اور غیب کے ان عظیم الشان حقائق کو اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا جن کے جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں۔ تاکہ جس نے اس سے بچنا ہو وہ بچ جائے قبل اس سے کہ فرصت حیات اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس کو ہمیشہ کے لیے پچھتانا پڑے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ 53۔ اہل علم کی عظمت شان اور قیامت کے روز ان کی مسرت کا سامان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ علم والے کہیں گے کہ بڑی رسوائی ہے آج کے دن کافروں کے لئے اور وہ ایسا خوشی اور شماتت کے طور پر بھی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے اس ہولناک عذاب سے بچالیا جس سے آج یہ لوگ دوچار ہورہے ہیں۔ اور ایسا یہ حضرات ان بدبختوں کی مزید از مزید تحقیروتذلیل کی غرض سے کہیں گے۔ سو اس سے دولت علم کی عظمت شان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اللہم اجعلنا منہم۔ سو علم کی روشنی ہی وہ روشنی ہے جو انسان کو مہلکات سے بچاتی ہے اور اس کو راہ حق و ہدایت سے سرفراز کرتی ہے۔ اور علم سے مراد وحی اور دین کا علم ہے کہ شان صرف اسی علم کی ہے۔ بہرکیف اوپر ان مفسدین کا ذکر تھا جو لوگوں کو بغیر کسی علم کے گمراہ کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں یہاں پر ان خوش نصیبوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جن کو حق و ہدایت کے علم کی روشنی سے نوازا گیا۔ جس کے مطابق انہوں نے خود بھی اپنے قلب وباطن کو منور کیا اور دوسروں کو بھی حق و ہدایت کی راہنمائی کی۔ سو ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت کے روز جب ایسے لوگ شرک کے علمبرداروں کی رسوائی کا یہ منظر دیکھیں گے تو خوشی سے پکار اٹھیں گے کہ یقینا اب ذلت و رسوائی ان مشرکوں کے لئے ہے جنہوں نے شرک ہی کی حالت میں جان دی۔ اس لئے اب وہ ذلت و رسوائی کے اس عذاب سے کبھی ہی نہ نکل سکیں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنا ہی بنائے رکھے اور اپنی رضاء و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
Top