Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nahl : 29
فَادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ
فَادْخُلُوْٓا : سو تم داخل ہو اَبْوَابَ : دروازے جَهَنَّمَ : جہنم خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہو گے فِيْهَا : اس میں فَلَبِئْسَ : البتہ برا مَثْوَى : ٹھکانہ الْمُتَكَبِّرِيْنَ : تکبر کرنے والے
سو دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ ہمیشہ اس میں رہو گے۔ اب تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے۔
29۔ جب کفار قیامت کے دن قسمیں کھا کر یہ بات کہیں گے کہ ہمیں تو کچھ بھی خبر نہیں کہ ہم برے عمل کرتے تھے اور اللہ پاک ان کے جواب میں کہے گا کہ ہاں تم برے عمل جو کرتے تھے ان کا حال اللہ کو خوب معلوم ہے پھر اس جواب وسوال کے بعد انہیں حکم ہوگا کہ جہنم کے دروازوں میں تم داخل ہوجاؤ اور ہمیشہ ہمیشہ کو بس اسی میں رہو اور یہی برا ٹھکانا تکبر اور غرور کرنے والوں کا ہے جو خدا اور رسول کی باتوں کو جھٹلایا کرتے تھے اور اپنی مالداری کے گھمنڈ میں رہے اور بت پرستی سے باز نہ آئے کفار جس و قت مرتے ہیں اسی وقت سے ان کو عذاب قبر کی سختی صبح شام دوزخ میں ان کا ٹھکانا دکھائے جانے کی سختی ہے اور پھر قیامت کے دن دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے جس کے بعد کوئی تخفیف ان کے عذاب میں نہ ہوگی اور نہ کسی تکلیف سے ان کی جان نکلے گی سختی ایسی ان پر کی جائے گی کہ گویا اب مرے اور اب مرے مگر مرنے کے نہیں کیوں کہ اس روز موت ذبح کردی جاوے گی چناچہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے عبد اللہ بن عمر ؓ کی روایت سے موت کے ذبح کئے 1 ؎ جانے کا ذکر ایک جگہ گزر چکا ہے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی حدیث بھی ایک جگہ گزر چکی ہے کہ کم سے کم عذاب والے شخص کے پیروں میں دوزخ کی آگ کی جوتیاں پہناوی جاویں گی جس سے اس شخص کا بھیجا پگھل کر نکل پڑے گا 2 ؎۔ زیادہ عذاب والے دوزخ کی تکلیف کا حال اس حدیث کی مثال سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 969 ج 2 باب صفتہ الجنۃ والنار الخ۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 2502 باب صفتہ النار واھلوا بحوالہ بخاری
Top