Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 29
فَادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ
فَادْخُلُوْٓا : سو تم داخل ہو اَبْوَابَ : دروازے جَهَنَّمَ : جہنم خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہو گے فِيْهَا : اس میں فَلَبِئْسَ : البتہ برا مَثْوَى : ٹھکانہ الْمُتَكَبِّرِيْنَ : تکبر کرنے والے
سو دوزخ کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ۔ ہمیشہ اس میں رہو گے۔ اب تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے
فادخلوا ابواب جھنم خلدین فیھا فلبئس مثوی المتکبرین پس جہنم کے دروازوں میں (سے جہنم میں) داخل ہوجاؤ اور اس میں ہمیشہ کیلئے رہو۔ غرض تکبر کرنے والوں کیلئے جہنم برا ٹھکانا ہے۔ یعنی تم میں سے ہر صنف جہنم کے اس مخصوص دروازہ میں داخل ہو جو اس صنف کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔ بعض علماء نے کہا : ابواب جہنم سے مراد ہیں : عذاب جہنم کی مختلف قسمیں۔ ضروری توضیح از مترجم بظاہر خالِدِیْنَ فِیْھَا، ادخُلوا کی ضمیر فاعل سے حال ہے اور حال و ذوالحال کا زمانہ حسب قاعدۂ نحو ایک ہونا چاہئے اور ظاہر ہے کہ دوزخ میں داخل ہونے کے وقت خلود نہیں ہوسکتا۔ داخل ہونا محدود وقت میں ہوگا اور اندر رہنا ہمیشہ ہوگا ‘ اسلئے حضرت مفسر نے خالِدِیْنَ کی تفسیر میں مُقَدَّرِیْنَ الْخَلُوْدَ فرمایا ‘ یعنی خالِدِیْنَ سے مراد یہ ہے کہ داخلہ کے وقت تمہارے لئے خلود مقدر کردیا گیا اور حکم دے دیا گیا کہ دوزخ کے اندر ہمیشہ رہو گے۔ ترجمہ میں مفسر کی اس توجیہ کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
Top