Urwatul-Wusqaa - An-Nahl : 29
فَادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ
فَادْخُلُوْٓا : سو تم داخل ہو اَبْوَابَ : دروازے جَهَنَّمَ : جہنم خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہو گے فِيْهَا : اس میں فَلَبِئْسَ : البتہ برا مَثْوَى : ٹھکانہ الْمُتَكَبِّرِيْنَ : تکبر کرنے والے
پس اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ تمہیں ہمیشہ کے لیے اسی میں رہنا ہے تو دیکھو گھمنڈ کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہے
کافروں کو قیامت کے روز دوزخ میں داخل ہونے کے متعلق کہا جائے گا : 35۔ سمجھ لینا چاہئے کہ بہشت یا دوزخ جو کچھ ہے انسان کے اپنے عمل کا لازمی نتیجہ ہے جس طرح دنیا کے ہر عمل کا کوئی نہ کوئی لازمی نتیجہ ہے مثلا کھانے کا نتیجہ شکم سیری ‘ پینے کا سیرابی ‘ بھوک کا تکلیف ‘ بیماری کا بےآرامی ‘ گرنے کا چوٹ ‘ زہر کا موت ‘ شہد کا مٹھاس غرض ہر اچھے یا برے فعل کا ایک لازمی جسمانی نتیجہ ہے جو دنیا میں ہمارے عمل کے بعد ہم کو ملتا رہتا ہے اسی طرح ہم کو اپنے اعمال کا ایک روحانی نتیجہ بھی لازمی ملنے والا ہے جو ہم کو اس دوسرے عالم میں ملے گا پھر جس طرح زہر کھا کر مرنے کی ذمہ داری خود ہم ہی پر عائد ہوتی ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم زہر کھا کر مر کیوں گئے یا گرنے سے ہم کو چوٹ کیوں آئی اسی طرح ہم یہ سوال بھی نہیں کرسکتے کہ ہم کو ان اعمال کے بعددوزخ کی سزا کیوں ملے گی کہ دونوں ہمارے اعمال کی یکساں لازمی نتیجے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اپنی غایت ورحمت سے ہمارے اعمال کے نتیجوں سے قبل از وقت مطلع فرما دیا ہے ہم کو اس کے نیک بد کی تمیز کا احساس بخشا ‘ عقل عنایت کی ضمیر عطا کیا ‘ پھر ہماری طرف نبی اور رسول بھیجے ‘ شریعت دی ‘ کتاب مرحمت فرمائی اس پر بھی ہم اگر باز نہ آئے اور ان اعمال کا ارتکاب کیا تو اب ہم کو اناعمال کے نتائج سے کون بچا سکتا ہے ۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ ” اب تمہارے لئے یہی ہے کہ جہنم کے دروازوں میں گروہ در گروہ داخل ہوجاؤ تمہیں ہمیشہ کے لئے اس میں رہنا ہے تو دیکھو حق کے مقابلہ میں گھمنڈ کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے ۔ “
Top