Tafheem-ul-Quran - An-Nahl : 29
فَادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِیْنَ
فَادْخُلُوْٓا : سو تم داخل ہو اَبْوَابَ : دروازے جَهَنَّمَ : جہنم خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہو گے فِيْهَا : اس میں فَلَبِئْسَ : البتہ برا مَثْوَى : ٹھکانہ الْمُتَكَبِّرِيْنَ : تکبر کرنے والے
اب جاوٴ، جہنّم کے دروازوں میں گھُس جاوٴ۔ وہیں تم کو ہمیشہ رہنا ہے۔“26 پس حقیقت یہی ہے کہ بڑا ہی بُرا ٹھکانہ ہے متکبّروں کے لیے
سورة النَّحْل 26 یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت، جس میں قبض روح کے بعد متقیوں اور ملائکہ کی گفتگو کا ذکر ہے، قرآن ان متعدد آیات میں سے ہے جو صریح طور پر عذاب وثواب قبر کا ثبوت دیتی ہیں۔ حدیث میں ”قبر“ کا لفظ مجازا عالم برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے، اور اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔ منکرین حدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدم محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس اور شعور نہ ہوگا۔ اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہوگا۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ کفار کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو موت کی سرحد کے پار کا حال بالکل اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہوجاتی ہیں۔ اور فورا سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی برا کام نہیں کر رہے تھے۔ جواب میں ملائکہ ان کو ڈانٹتے ہیں اور جہنم واصل ہونے کی پیشگی خبر دیتے ہیں۔ دوسری طرف اتقیاء کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ ان کو سلام بجا لاتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارکباد دیتے ہیں۔ کیا برزخ کی زندگی، احساس، شعور، عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے ؟ اسی سے ملتا جلتا مضمون سورة نساء آیت نمبر 97 میں گزر چکا ہے۔ جہاں ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں سے قبض روح کے بعد ملائکہ کی روح کا ذکر آیا ہے اور ان سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذاب برزخ کی تصریح سورة مومن آیت نمبر 4546 میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرعون اور آل فرعون کے متعلق بتاتا ہے کہ ”ایک سخت عذاب ان کو گھیرے ہوئے ہے، یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، پھر قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو“۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان کی حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے نہ کہ بالکل معدوم ہوجانے کا۔ جسم سے علیٰحدہ ہوجانے بعد روح معدوم نہیں ہوجاتی بلکہ اس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی۔ اس حالت میں روح کی شعور، احساس، مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ یہ مجرم روح سے فرشتوں کی باز پرس اور پھر اس کا عذاب اور اذیت میں مبتلا ہونا اور دوزخ کے سامنے پیش کیا جانا، سب کچھ اس کیفیت سے مشابہہ ہوتا ہے جو ایک قتل کے مجرم پر پھانسی کی تاریخ سے ایک دن پہلے ایک ڈراؤنے خواب کی شکل میں گزرتی ہوگی۔ اسی طرح ایک پاکیزہ روح کا استقبال، اور پھر اس کا جنت کی بشارت سننا، اور جنت کی ہواؤں اور خوشبوؤں سے متمتع ہونا، یہ سب بھی اس ملازم کے خواب سے ملتا جلتا ہوگا جو حسن کارکردگی کے بعد سرکاری بلاوے پر ہیڈ کو ارٹر میں حاضر ہوا ہو اور وعدہ ملاقات کی تاریخ سے ایک دن پہلے آئندہ انعامات کی امیدوں سے لبریز ایک سہانا خواب دیکھ رہا ہو۔ یہ خواب ایک لخت نفخ صور دوم سے ٹوٹ جائے گا اور یکایک میدان حشر میں اپنے آپ کو جسم و روح کے ساتھ زندہ پا کر مجرمین حیرت سے کہیں گے کہ (ارے یہ کون ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھا لایا ؟) مگر اہل ایمان پورے اطمینان سے کہیں گے (یہ وہی چیز ہے جس کا رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کا بیان سچا تھا)۔ مجرمین کا فوری احساس اس وقت یہ ہوگا کہ وہ اپنی خواب گاہ میں (جہاں بستر موت پر انہوں نے دنیا میں جان دی تھی) شاید کوئی ایک گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے اور اب اچانک اس حادثہ سے آنکھ کھلتے ہی کہیں بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ مگر اہل ایمان پورے ثبات قلب کے ساتھ کہیں گے کہ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِیْ کِتَاب اللہ الیٰ یُوْ مِ الْبَعْثِ وَلٰکِنَّکُمْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (اللہ کے دفتر میں تو تم روز حشر تک ٹھیرے رہے ہو اور یہی روز حشر ہے مگر تم اس چیز کو جانتے نہ تھے)۔
Top