Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 37
فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَیْنِهِمْ١ۚ فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ مَّشْهَدِ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
فَاخْتَلَفَ : پھر اختلاف کیا الْاَحْزَابُ : فرقے مِنْۢ بَيْنِهِمْ : آپس میں (باہم) فَوَيْلٌ : پس خرابی لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْا : کافروں کے لیے مِنْ : سے مَّشْهَدِ : حاضری يَوْمٍ عَظِيْمٍ : بڑا دن
پھر (اہل کتاب کے) فرقوں نے باہم اختلاف کیا سو جو لوگ کافر ہوئے ان کو بڑے دن (یعنی قیامت کے روز) حاضر ہونے سے خرابی ہے
37۔ 38:۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی نصیحت کا نتیجہ ذکر فرمایا کہ جو لوگ اپنے آپ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیرو کہتے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی نصیحت کو بالکل رائیگاں کردیا اور بجائے خالص اللہ کی عبادت کے ان میں کے کچھ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کہنے لگے کچھ خدا کا بیٹا اور کچھ خدا کا شریک اور ان میں کے جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی نصیحت پر قائم تھے ان سے لڑے اور ان کو مارا اس لڑائی کا ذکر اس وقت کی تاریخ کی کتابوں میں تفصیل سے ہے پھر فرمایا ایسے منکر شریعت لوگوں کو قیامت کے دن بڑی خرابی پیش آنے والی ہے اب دنیا میں تو یہ لوگ اللہ کے رسول کی نصیحت کو رائیگاں کر رہے ہیں لیکن قیامت کے دن اس نصیحت کے سننے کو ان کے کان اور نصیحت کے رائگاں کرنے کے عذاب کو دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں کھل جائیں گی مگر وہ بےوقت کا سننا دیکھنا ان کے کچھ کام نہ آئے گا صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک کی روایت کئی جگہ گزر چکی ہے کہ کم سے کم عذاب والا دوزخی شخص تمام دنیا کے مال ومتاع کو جرمانہ میں دے کر دوزخ کے عذاب سے نجات چاہے گا تو نجات نہ ہو سکے گی 1 ؎ اس حدیث سے یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ اللہ کے رسولوں کی نصیحت کو رائگاں کرنا اتنا بڑا جرم ہے جو تمام دنیا کے مال ومتاع کے جرمانہ سے بھی معاف نہیں ہوسکتا۔ (1 ؎ صحیح مسلم ص 374 ج 2 باب فی الکفار۔ )
Top