Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hajj : 61
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ یُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ يُوْلِجُ : داخل کرتا ہے الَّيْلَ : رات فِي النَّهَارِ : دن میں وَيُوْلِجُ : اور داخل کرتا ہے النَّهَارَ : دن فِي الَّيْلِ : رات میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
یہ اس لئے کہ خدا رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور خدا تو سننے والا اور دیکھنے والا ہے
61: 64:۔ اوپر مظلوم کی غیبی مدد کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں رات دن کے گھٹنے بڑھنے اور اس موسم کی تبدیلی سے برسات کا موسم آجانے اور اس موسم میں مینہ کے برسنے اور اس مینہ سے طرح طرح کی پیداوار کے پیدا ہونے قدرت کی چند نشانیوں کا ذکر فرمایا تاکہ ہر شخص کی سمجھ میں آجاوے کہ جس کی قدرت میں یہ خلاف عقل آنکھوں کے سامنے کی سب باتیں ہیں اس کی قدرت میں یہ بھی ہے کہ وہ جس کمزور کو چاہے خلاف عقل بڑے سے بڑے ظالم دشمن پر فتح یاب کر دے ‘ صحیح بخاری میں براء بن العازب سے اور صحیح مسلم میں حضرت عمر ؓ سے جو 2 ؎ روایتیں ہیں ‘ ان کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی کے وقت لشکر اسلام کی تعداد تین سو انیس سے بڑھ کر نہیں تھی ‘ سورة انفال میں گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کی فوج اس لڑائی میں ہزار آدمی کے قریب تھی ‘ یہ بھی گزر چکا ہے کہ مدد غیبی سے جو فتح ہوئی وہ بالکل خلاف عقل تھی ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں سے پہلے کی آیت میں مظلوم کی مدد کا وعدہ فرما کر ان آیتوں میں قدرت کی چند نشانیوں سے قوت مقررہ پر اس وعدہ کے ظہور کا جو یقین دلایا گیا تھا وہ ظہور بدر کی لڑائی کے وقت ایسا ہوا کہ مشرکین مکہ میں کے جن بڑے بڑے سرکش ظالموں نے ہجرت سے پہلے غریب مسلمانوں پر طرح طرح کا ظلم کیا تھا ‘ اس لڑائی میں وہ ظالم بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عذاب آخرت میں گرفتار ہوگئے ‘ جس عذاب کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ان سرکش ظالموں کی لاشوں پر کھڑے ہو کر یہ فرمایا کہ اب تو تم لوگوں نے اللہ کے وعدے کو سچا پالیا ‘ صحیح بخاری کی انس بن مالک کی روایت کے حوالہ سے بدر کی لڑائی کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے ‘ حاصل مطلب ان آیتوں کا یہ ہے کہ جس اللہ نے وطن چھوڑنے والے مظلوم مسلمانوں سے مدد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ بڑا صاحب قدرت ہے ‘ جب یہ ہے کہ جس اللہ نے وطن چھوڑنے والے مظلوم مسلمانوں سے مدد کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ بڑا صاحب قدرت ہے ‘ جب چاہتا ہے دن کی گھڑیاں بڑھا کر رات کی گھڑیاں گھٹا دیتا ہے ‘ اسی طرح جب چاہتا ہے دن کی گھڑیاں گھٹا کر رات کی گھڑیاں بڑھا دیتا ہے مظلوموں کی ہر وقت کی فریاد کو سنتا اور ظالموں کے ہر طرح کے ظلم کو دیکھتا ہے ‘ یہ اس واسطے ہے کہ وہ بڑا بادشاہ ہے کوئی چیز اس کے حکم سے باہر نہیں ہے ‘ یہ نادان مشرک ایسے بڑے صاحب قدرت کی تعظیم میں بتوں کو جو شریک کرتے ہیں ‘ مکہ کے قحط کے وقت ان بت پرستوں کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہوچکی ہے کہ ان بتوں کو یا جن کے نام کی یہ مورتیں ہیں ان کو اللہ کے کار خانے میں کسی کو کچھ دخل نہیں ‘ پھر فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ کی یہ قدرت بھی سب کی آنکھوں کے سامنے ہے کہ وہ صاحب قدرت موسیٰ کی تبدیلی سے ہر سال برسات میں آسمان سے مینہ کے برسنے کا حکم دیتا ہے جس سے تمام زمین سرسبز ہوجاتی ہے ‘ یہ سب تدبیریں اس کے اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں کی ضرورتوں سے واقف اور ان ضرورتوں کی خبر رکھتا ہے ‘ پھر فرمایا کہ جو کچھ زمین و آسمان میں ہے وہ سب اس کے حکم میں ہے اس واسطے اس کے کسی انتظام کو کوئی روک نہیں سکتا ‘ اس کو آسمان و زمین کی کسی چیز کی کچھ پرواہ نہیں اس لیے اس کے سب کام دوسروں کے فائدہ کے لیے اور قابل تعریف ہیں۔ (2 ؎ صحیح بخاری مع شرح فتح الباری ‘ باب عدۃ اصحاب بدر )
Top