Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 61
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّهَارِ وَ یُوْلِجُ النَّهَارَ فِی الَّیْلِ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌۢ بَصِیْرٌ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ يُوْلِجُ : داخل کرتا ہے الَّيْلَ : رات فِي النَّهَارِ : دن میں وَيُوْلِجُ : اور داخل کرتا ہے النَّهَارَ : دن فِي الَّيْلِ : رات میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
106یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے 107 اور وہ سمیع و بصیر ہے۔ 108
سورة الْحَجّ 106 اس پیرا گراف کا تعلق اوپر کے پورے پیراگراف سے ہے نہ کہ صرف قریب کے آخری فقرے سے۔ یعنی کفر و ظلم کی روش اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کرنا، مومن و صالح بندوں کو انعام دینا، مظلوم اہل حق کی داد رسی کرنا، اور طاقت سے ظلم کا مقابلہ کرنے والے اہل حق کی نصرت فرمانا، یہ سب کس وجہ سے ہے ؟ اس لیے کہ اللہ کی صفات یہ اور یہ ہیں۔ سورة الْحَجّ 107 یعنی تمام نظام کائنات پر وہی حاکم ہے اور گردش لیل و نہار اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اس ظاہری معنی کے ساتھ اس فقرے میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو خدا رات کی تاریکی میں سے دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کردیتا ہے، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہے ان کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھاوے، اور کفر و جہالت کی جو تاریکی اس وقت حق و صداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے حکم سے چھٹ جائے اور وہ دن نکل آئے جس میں راستی اور علم و معرفت کے نور سے دنیا روشن ہوجائے۔ سورة الْحَجّ 108 یعنی وہ دیکھنے اور سننے والا خد ہے، اندھا بہرا نہیں ہے۔
Top