Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 90
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَاُزْلِفَتِ : اور نزدیک کردی جائے گی الْجَنَّةُ : جنت لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور بہشت پرہیزگاروں کے قریب کردی جائے گی
(90 تا 101) دنیا میں جن لوگوں نے جنت میں داخل ہونے کے لائق کام کئے جنت کو سنوار کر ان پرہیز گاروں کے روبرو لایا جائے گا اور دوزخ کو گمراہوں کے سامنے کیا جائے گا اور نکلے گی دوزخ میں سے ایک گردن پھر اس طرح چیخے گی کہ دل ہل جاویں گے یہ جھڑکی کے طور پر دوزخیوں سے وہ آگ کی گردن کہے گی کہ کہاں ہیں وہ جن کو تم پوجتے تھے اللہ کو چھوڑ کر پھر اوندھے ڈالے جاویں گے دوزخ میں سب گمراہ اور تمام لشکر شیطان کا جب وہ اس دوزخ میں جھگڑیں گے تو بہکنے والے بہکانے والوں سے کہیں گے قسم خدا کی ہم کھلی گمراہی میں تھے جبکہ برابر کرتے تھے ہم تم کو رب العالمین کے ساتھ اور کہیں گے نہیں بہکایا ہم کو راہ نیک سے مگر انہیں مجرموں نے اب کوئی نہیں ہماری سفارش کرنے والا اور نہیں کوئی دوست ہمارا محبت کرنے والا۔ حیم سے مطلب قریب کا رشتہ دار ہے پل صراط اس پل کا نام ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیان میں ہے جو کوئی جنت میں داخل ہوگا اس کو اس پل پر سے گزرنا پڑے گا صحیح مسلم میں حذیفہ ؓ اور ابوہریرہ ؓ سے جو 1 ؎ روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ اپنے اپنے اعمال کے موافق نیک لوگ اس پل پر سے گزریں گے کچھ لوگ بجلی کی طرح اور کچھ ہوا کی طرح اور کچھ کی پرواز جانوروں کی طرح۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان آیتوں میں جنت کو پرہیزگاروں کے پاس لائے جانے کا جو ذکر ہے یہ روایتیں گویا اس کی تفسیر ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ پل صراط پر جیسے جس کی چال ہوگی ویسی اس کو جنت پاس معلوم ہوگی صحیح مسلم کے حوالہ 2 ؎ عبد اللہ مسعود ؓ کی ایک حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا ستر ہزار نکیلیں لگا کر دوزخ کو میدان حشر میں لایا جائے گا۔ ان آیتوں میں دوزخ کے سامنے لائے جانے کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے دوزخ کی گردن کے نکلنے کا ذکر ترمذی میں ابوہریرہ ؓ کی معتبر حدیث میں آیا ہے۔ (1 ؎ الترغیب والترہیب ص 427 ج باب الحوض والمیزان والصراط ‘ ) (2 ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی صفۃ اہل النار )
Top