Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 90
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَاُزْلِفَتِ : اور نزدیک کردی جائے گی الْجَنَّةُ : جنت لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی
وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّـۃُ لِلْمُتَّـقِیْنَ ۔ وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغٰوِیْنَ ۔ (الشعرآء : 90، 91) (اور جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی۔ اور دوزخ گمراہوں کے لیے بےنقاب کی جائے گی۔ ) اِزَلاَ فْ کے معنی قریب لانے کے ہیں اور تَبْرِیْز کا معنی کھول دینا اور بےنقاب کردینا ہے۔ متقین کا اعزاز دنیا میں انسانوں نے اپنے آپ کو بہت سے گروہوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ کہیں ذات پات کی تفریق ہے اور کہیں فرقہ بندیوں کی، کہیں لسانی تفرقے ہیں اور کہیں جغرافیائی نسبتیں۔ اسلام کے نزدیک دنیا میں بھی قابل قبول تقسیم صرف ایک ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان مومن ہے یا کافر۔ اور اسی بنیاد پر قیامت کے دن بھی ایک ہی تقسیم ہوگی، اہل جنت یا اہل جہنم۔ اہلِ جنت نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تکلیفیں اٹھائیں۔ نہ جانے کتنی دنیوی لذتوں سے اپنے آپ کو روکا اور صبر کیا۔ چناچہ جب یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں گے تو یہ لوگ نہات عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔ وہ انھیں اپنے قریب کرے گا اور ان کو اس اعزاز سے نوازے گا کہ جنت خود ان کے قدم لے گی اور بجائے اس کے کہ یہ چل کر جنت تک پہنچیں، جنت ان کے قریب لائی جائے گی۔ کافروں کا حشر اہلِ جہنم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی بجائے شیطان کی قربت حاصل کی۔ ہَوائے نفس کا اتباع کیا اور اللہ تعالیٰ کے راستے پر چلنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بھی ان کو دور کردے گا۔ اور یہ چونکہ اہل جہنم کے راستے پر چلتے رہے اس لیے جہنم اور ان کے درمیان پردہ اٹھا دیا جائے گا اور یہ دور ہی سے جہنم کو دہکتا ہوا دیکھیں گے اور ان میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان کی جان ہوا ہونے لگے گی۔ اور اہل جہنم یہ بات محسوس کریں گے کہ جس دوزخ اور جہنم کو ہم نے ہمیشہ ایک افسانہ سمجھا اور اگر کبھی مفروضے کے طور پر مانا بھی تو یہ کہا کہ وہ ہم سے بہت دور ہے۔ آج وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ جہنم اور ان کے درمیان صرف ایک پردہ ہی حائل تھا جو آج اٹھا دیا گیا ہے۔
Top