Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 90
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَاُزْلِفَتِ : اور نزدیک کردی جائے گی الْجَنَّةُ : جنت لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور قریب کردی جائے گی جنت متقین ( ڈرنے والوں کے لیے)
ربط آیات اس رکوع میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات بیان ہو رہے ہیں ۔ گزشتہ درس میں آپ کی بعض دعائوں کا ذکر تھا جو اپنے پروردگار کے سامنے پیش کیں اور ساتھ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات بھی بیان کی گئی تھیں کہ وہی خالق ہے اور صراط مستقیم بھی وہی دکھاتا ہے ۔ مجھے اور جاندار کی روزی کا وہی ذمہ دار ہے اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو شفا بھی وہی بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی مجھے موت دیگا اور پھر قیامت کو دوبارہ زندہ کرے گا ۔ پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی کہ پروردگار ! میری خفائوں کو معاف فرما ، مجھے حکمت عطا فرما اور نیکیوں کے ساتھ انجام فرما ۔ آپ نے پچھلے لوگوں میں اپنے ذکر خیر کے جاری رکھنے کی دعا بھی کی ۔ اپنے لیے جنت کی درخواست اور باپ کے لیے بخشش کی دعا مانگی ۔ اب آج کے درس میں نیکو کاروں کے لیے جنت کی بشارت اور سر کشوں کے لیے جہنم کی وعیدسنائی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ جہنمیوں کے بعض حالات بھی بیان کیے گئے ہیں جو قیامت کو پیش آنے والے ہیں ۔ متقین کے لیے جنت ارشاد ہوتا ہے وازلفت الجنۃ للمتقین اور جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی ۔ قرآن پاک میں جنت تک رسائی دو طریقوں سے بیان کی گئی ہے۔ مگر مفہوم ایک ہی ہے ایک طرز بیان یہ ہے کہ جو بیان بیان کیا گیا ہے۔ یعنی جنت متقیوں کے قریب کردی جائے گی سورة ق میں بھی یہی الفاظ میں اور آگے اضافہ ہے غیر بعید ( آیت : 13) جو کہ دور نہیں ہوگی ۔ اسی طرح سورة التکویر میں و اذالجنۃ از لفت ( آیت : 31) جب جنت قریب کردی جائے گی ۔ بیان کا دوسرا طریقہ عام ہے کہ اہل ایمان کو جنت میں داخل کیا جائے گا ۔ جیسے سورة النحل میں متقیوں کے متعلق فرمایا جنت علن یدخلونھا ( آیت : 13) ہمیشہ رہنے کے باغات میں جن میں وہ داخل ہوں گے۔ اسی طرح سورة زہر میں ہے کہ فرشتے نیکو کاروں کو گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائیں گے ۔ اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔ تو اس کے داروغے ان سے کہیں گے ۔ تم پر سلام ہو ، تم بہت اچھے ہو۔ فادخلوھا خلدین ( آیت 37) اب اس میں ہمیشہ کے لیے داخل ہو جائو ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جنت یا دوزخ لوگوں سے نجات میں ہوں گے ۔ پھر جب وہ حجاب اٹھا دیا جائے گا ۔ تو جنتی جنت کو قریب ہی پائیں گے ، ایک عام مقولہ بھی ہے کہ جب کوئی مسافر سفر کرتے ہوئے کسی شر یا بستی میں پہنچتا ہے تو کہتا ہے کہ فلاں بستی قریب آگئی ہے حالانکہ بستی تو اپنی جگہ قائم ہوتی ہے اور مسافر خود وہاں پہنچتا ہے۔ اسی طرح جنت تو اپنی جگہ پر قائم ہے مگر جب جنتی وہاں قریب پہنچیں گے تو اسی کو کہا گیا ہے کہ جنت ان کے قریب کردی جائے گی ۔ اگر اس جملے کو بعینہٖ ظاہر ی معنوں میں لیا جائے تو بھی درست ہے ، جیسا کہ دوزخ کے متعلق مسلم شریف میں آتا ہے یوتی بجھنم یومئذ لھا سبعون الف زمام مع کل زمام سبعون الف ملک اس دن جہنم کو کھینچ کر میدان محشر کے قریب لایا جائیگا جس کی ستر ہزار زنجیریں ہوں گی اور ہر زنجیر کے ساتھ ستر ہزار کھینچنے والے فرشتے ہوں گے۔ گمراہوں کا انجام فرمایا وبرزت الحجیم للغوین اور ظاہر کردیا جائے گا ، دوزخ کی گمراہیوں کے لیے جو لوگ عمر بھر کفر و شرک اور گمراہی میں پھنسے رہے ۔ ان کو دوزخ کا نظارہ کرادیا جائے گا ۔ جس کے متعلق سورة المعارج میں فرمایا کلا انھا لظی نزاعۃ لشوی ( آیت 51) یہ بھڑکتی ہوئی آگ سے جو کھال ادھیڑ کر رکھ دے گی ۔ امام ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس جہنم میں سے ایک گردن نکلے گی جو گناہ گاروں کی طرف غضبناک تیوروں سے دیکھے گی اور ایشا شور مچائے گی کہ دل اڑ جائیں گے ۔ کلیجے ہل جائیں گے اور مشرکوں سے ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرمایا جائے گا وقیل لھم اینما کنتم تعبدون من دون اللہ کہاں ہیں تمہارے وہ باطل معبود جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے تھے ھل ینصرون لکم کیا آج وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں ؟ او ینتصرون یا وہ بدلہ لے سکتے ہیں ؟ مگر وہ کوئی جواب نہیں دے سکیں گے فکبکوا فیھا ھم والغاون پھر وہ اور تمام کج رو جہنم میں اوندھے منہ ڈال دیئے جائیں گے ۔ تابع اور متبوع سب کا ایک ہی ٹھکانہ ہوگا اور کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچے گا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ وجنود ابلیس اجمعون ، شیطان کے تمام لشکر بھی جہنم رسید کردیئے جائیں گے جو لوگوں کو ہکا کر کفر اور شرک پر آمادہ کرتے رہے۔ قالو وھم فیھا یختصمون دوزخ میں پہنچنے والے آپس میں جھگڑتے ہوئے کہیں گے تا للہ ان کنا لفی ضلل مبین اللہ کی قسم ہم تو کھلی گمراہی میں تھے۔ اس وقت اقرار کریں گے کہ دنیا میں ہم نے صحیح راستہ اختیار نہ کیا اور ادھرادھر بھٹکتے رہے اذ نسویکم برب العلمین جب کہ ہم تمہیں پروردگار عالم کے ساتھ برابر کرتے تھے وما اضلنا الا المجرمون ہمیں تو ان مجرموں یعنی گناہ گاروں نے گمراہ کردیا تھا۔ اس وقت چھوٹے لوگ بڑے لوگوں کی طرف اشارہ کریں گے اور تابعین اپنے متبوعین کو مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ یہ ہم سے اپنی عبادت کراتے رہے ہم ان کے حکم کو خدا کا حکم سمجھ کر عمل کرتے رہے۔ ان کو نذر ونیاز پیش کرتے رہے مگر یہ آج ہماری کچھ مدد نہیں کر پائے بلکہ ہمارے ساتھ یہ بھی جہنم میں پہنچ چکے ہیں ، ہمیں تو انہوں نے مروا دیا ۔ 1 ؎۔ تفسیر ابن کثیر ص 933 ج 3 ( فیاض) فما لنا من شافعین آج ہماری سفارش کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا جو ہمیں اس عذاب سے چھڑا سکے ولا صدیق حمیم اور نہ ہی کوئی محبت کرنے والا دوست ہے جو دوستی کا حق ادا کرسکے۔ اس وقت تابعین سخت مایوسی کا اظہار کریں گے۔ یہاں پر یہ نقطہ غور طلب ہے کہ لفظ شافعین کو جمع لایا گیا ہے جب کہ صدیق مفرد ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ صدیق اسم جنس کی طرح ہے جس کا اطلاق مفرد اور جمع دونوں پر ہوتا ہے ۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ سفارشی تو عاد تاً بہت ہوتے ہیں اس لیے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جب کہ مخلص دوست عزیز الوجود یعنی بہت کم ہوتے ہیں اس لیے صدیق مفرد دلایا گیا ہے۔ دنیا میں واپسی کی حسرت پھر آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں گے فلوان لنا کرہ فنکنو من المومنین کیا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹ جائیں اور وہاں جا کر ایمان لانے والوں میں ہوجائیں ۔ اب کی بارہم کفر اور شرک کے قریب نہیں جائیں گے اور نہ شیطان اور دوسرے معبود ان باطلہ کے جھانسے میں آئیں گے بلکہ صدق دل سے اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں گے ، کیا ایسا ممکن ہے ؟ مگر ان کی یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہوگی ۔ سورة البقرہ میں ہے کہ تابعین کہیں گے کہ اگر ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے ، تو ہم ان متبوعین سے اسی طرح بیزاری کا اظہار کریں گے جس طرح آج یہ ہم سے کر رہے ہیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو حسرت کی صورت میں دکھانے کا وما ھم بخرجین من النار ( آیت : 761) مگر وہ دوزخ سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ ان کی حسرت ان کے دل میں ہی رہ جائے گی ۔ سور ہ السجدہ میں بھی ہے کہ مجرم لوگ اپنے پروردگار کے سامنے سرنگوں کھڑے ہوں گے اور کہیں گے پروردگار ! ہم نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور سن لیا فارجعنانعمل صالحا ً ( آیت : 21) ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے۔ اب ہم اچھے اعمال انجام دیں گے ، مگر جواب ملے گا کہ وذوقوا عذاب الخلد بما کنتم تعلمون ( آیت : 41) اب اپنی کار گزاری کے بدلے میں ہمیشہ کا عذاب چکھو ۔ اب تم واپس نہیں جاسکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بد بخت اگر دوبارہ بھی دنیا میں لوٹا دیئے جائیں تو پھر وہی بد اعمالیاں شروع کردیں جو پہلے کرتے رہے ہیں ۔ حرف آخر فرمایا ان فی ذلک لا یۃ بیشک اس میں البتہ نشانی ہے اور وہ یہ کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے اللہ کی وحدانیت کی جو بھی دلیلیں پیش کیں اور قوم کو جس طریقے سے سمجھایا ۔ اس میں خدا تعالیٰ کی یکتائی کی برہان صاف موجود ہے۔ انسان اگر ذرا سا بھی غور و فکر کرے تو اس کے تمام شکوک و شبہات رفع ہو سکتے ہیں ۔ اس کے باوجود وما کان اکثر ھم مومنین ان میں سے لوگوں کی اکثریت ایمان سے محروم رہتی ہے۔ انہیں توحید کی بات سمجھ میں ہی نہیں آتی اور اس طرح کفر و شرک پر اڑے رہتے ہیں فرمایا یادرکھو ! وان ربک لھو العزیز الرحیم بیشک تیرا پروردگار زبردست ہے آج تو یہ لوگ اس کی توحید کو تسلیم نہیں کرتے مگر قیامت والے دن ان کو پتہ چلے گا کہ جس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے رہے وہ کتنا زبردست اور غالب ہے۔ سورة یوسف میں ہے واللہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون ( آیت : 12) اللہ تعالیٰ اپنے ہر کام پر غالب ہے ۔ اس کے ارادے اور مشیت میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے اور وہ گمراہی میں لا پرواہ پر رہتے ہیں ، فرمایا اس کے ساتھ ساتھ وہ ابراہیم بھی ہے ۔ اس کا کوئی بندہ جب قد سرکشی کو چھوڑ کر اس کے دروازے پر آجائے اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرلے تو وہ نہایت رحم والا ہے اور معاف کردیتا ہے کتب علی نفسہ الرحمۃ ( الانعام : 31) اس نے اپنے اوپر رحمت کو واجب کر رکھا ہے اس تا یہ بھی فرمان ہے ۔ ورحمتی وسعت کل شی ( الاعراف : 651) میری رحمت ہر چیز پر وسیع ہے جونہی اس کا کوئی بندہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے اس کی رحمت بندے لو ڈھانپ لیتی ہے اور وہ بندے کو معاف کر کے اپنی آغوش رحمت میں لے لیتا ہے۔
Top